سورج گہن اور چاند گہن کے وقت کیا کرنا چاہیے ؟؟ سورج گرہن کی نماز… حاملہ عورت اور سورج گہن… اسلامی طریقہ

🌒 سورج گہن کی نماز کا طریقہ اور اہم معلومات🌒

✒️سوال : سورج گہن کی نماز کا طریقہ اور نیت کس طرح کریں؟ ….. سورج گہن کے وقت کیا کرے کیا نہ کریں؟؟؟ حاملہ عورت سے متعلق بہت ساری من گھڑت باتیں مشہور ہیں اسلام اس کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ جواب عطا فرمائیں کرم ہو گا؟
👏سائل : محمد اظہر الدین نوری املنیر

الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

📚کسوف کا معنی سورج گرہن اور خسوف کا معنی چاند گرہن ہے۔

📚حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جس دن (آپ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو سورج گرہن لگا۔ لوگوں نے کہا : ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن لگا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اﷲِ. لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَّلَا لِحَيَاتِهِ. فَإِذَا رَأْيْتُمُوْهَا فَافْزَعُوْا لِلصَّلَاةِ.

📚مسلم، الصحيح، کتاب الکسوف، باب صلاة الکسوف، 2 : 619، رقم : 901

’’بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کے مرنے جینے سے ان کو گرہن نہیں لگتا پس جب تم ان نشانیوں کو دیکھو تو نماز پڑھو۔‘‘

نماز کسوف کا طریقہ
جب سورج گرہن ہو تو چاہئے کہ امام کے پیچھے دو رکعتیں پڑھے جن میں بہت لمبی قرات ہو اور رکوع سجدے بھی خوب دیر تک ہوں، دو رکعتیں پڑھ کر قبلہ رُو بیٹھے رہیں اور سورج صاف ہونے تک اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں۔

سورج گرہن کی نماز کی نیت : نیت کرتا ہوں دو رکعت نماز نفل کسوفِ شمس کی، واسطے اللہ تعالیٰ کے، پیچھے اس امام کے، رُخ میرا قبلہ کی طرف، ﷲُ اَکْبَر۔
سورج گرہن کے وقت اس کی شعاؤں سے حاملہ عورت اور آنکھوں کو نقصان پہنچنے کا تعلق طب سے ہے نہ کہ شریعت سے، چنانچہ بعض اطباء کہتے ہیں کہ اس وقت حاملہ عورت نہ کھلی فضا میں نکلے، نہ آسمان کی طرف دیکھے، نہ دھار والی چیز استعمال کرے اور نہ آگ کے پاس جائے کہ اس سے حمل کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، اس لئے ان کی ہدایت کو شرعی حکم نہ سمجھتے ہوئے احتیاط کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، تاہم شرعی اعتبار سے سورج گرہن ہونا ﷲ تعالی کی نشانی ہے، ﷲ تعالی اپنے بندوں کو یہ بتلانا چاہتا ہے کہ سورج لائق عبادت نہیں، بلکہ یہ بھی ﷲ تعالی کے حکم کا پابند ہے، جب ﷲ تعالی اس کی روشنی کو ختم کردے تو سورج میں اتنی طاقت وقدرت نہیں کہ وہ اپنے اندر روشنی پیدا کرے، چنانچہ جب سورج گرہن ہو تو ﷲ تعالی کی طرف متوجہ ہو اور خوب استغفار کرے اور نماز و دعا میں لگے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم

محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں

شرعی عدالت واٹس ایپ گروپ
https://chat.whatsapp.com/ICETLj5LyO5CUErnheJOtb

ایڈمن: اسلامک معاشرہ یوٹیوب چینل

👍Plzzzz 🔀 subscribe

islamic muashra

🛑 youtube channel 🛑

شرعی عدالت یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں..

https://www.youtube.com/channel/UCvWcXNmBFucLXlArnrloz1


[08/04, 12:16 am] MuftiMohammadRazaMarkazi: 🌹

کیا سور ج یا چاند گر ہن کے وقت حاملہ عورتوں کو چلتے پھرتے رہنا چاہئے ؟🌹

🌹 سوال🌹
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
علمائے کرام اس معاملہ میں رہنمائی فرمائیں کہ چاند اور سورج گہن کے دوران حمل والی عورت کیا سو نہیں سکتی اور گھر کے باہر نہیں جا سکتی علمائے کرام جلدی جواب عطا فرمائیں کیونکہ آج رات چاند گہن ہے جئسا کہ نیوز کے ذریعہ خبر لگی بہت مہربانی ہو گی
و علیکم السلا م ورحمة اللہ وبرکاتہ
🌹👇👇جواب👇👇🌹
حــــضــــرت عــــلا مــــہ مــــفــــتــــی مـــنـــیــــب الــــرحــــمــــٰن صــــاحــــب قـــــبـــلـــہ تــــحــــر یــــر فـــــر مــــاتــــے ہــــیــــں کـــــہ ،،

یہ خیال شرعا بالکل باطل اور غلط ھے کہ سور ج یا چاند گر ہن کے موقع پر خواتین بالخصوص حاملہ خواتین پر کوئی اثر مرتب ھوتے ہیں یا انہیں اس وقت چلتے پھرتے ر ہنا چاہئے ( سونا نہیں چاہئے ) ان توہمات کی شرعا کوئی حیثیت نہیں ۔۔ ہاں خواتین کو بھی چاہیئے کہ نماز ، ذ کر ، توبہ و استغفار اور تسبیح و تحمید میں مشغول ر ہیں ۔۔
( تفہیم المسائل جلد 6⃣ صفحہ 47 )

والله اعلم با لصواب ،


🌹 Kya Chand Ya suraj Garhan K Waqt Hamlah Aurat Ko Chalte Rahna Chahiye ?🌹

🌹🌹 Sawal🌹🌹

AssalamuAlaikum WarahmatullAhi Wabarakatuhu

Ulmaye Kiraam Is MuAmilah Mein Rehnumayi Farmaye’n Ke Chaand Aur Suraj Gahan Ke Dauraan Hamal Wali Aurat Kya So Nahi Sakti Aur Ghar Ke Bahar Nahi Ja Sakti
Ulmaye Kiraam Jaldi Jawab Ata Farmaye’n Kyunke Aaj Raat Chaand Gahan Hai. Jaisa Ke News Ke Zariah Khabar Lagi Bahot Maherbani Hogi
🌹Sayel 🌹mohammad Khairullaah

🌹👇 👇 jwaab👇 👇 🌹
Hazrat Aallama Mufti Muneebur -Rahmaan Sahab Qiblah Tehreer Farmate Hain Ke,

Ye Kahyaal Shar’an Bilkul Baatil Aur Ghalat Hai
Ke Suraj Ya Chaand Garhan Ke Mauqa Par Khawateen BilKhusoos Hamilah Khawateen Par Koi Asar Murattab Hote Hain Ya Unhe’n us Waqt Chalte Phirte Rehna Chahiye
(Sona Nahi Chahiye) In Tawahhumaat Ki SharAn Koi Haisiyat Nahi. Haan Khawateen Ko Bhi Chahiye Ke Namaz , Zikr , Tauba-O-Istighfaar Aur Tasbeeh -O- Tehmeed Mein Mashghool Rahe’n.

(Tafheemul Masayil , J:6 , S:47)

ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور سرخ گائے کی قربانی… کیا ہے ہیکل سلیمانی؟؟؟ سرخ بچھیا اور مذہب یہودیت

مسجدِ اقصیٰ کی شہادت اور ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر..
سرخ گائے کی قربانی
کیا ہے ہیکل سلیمانی؟؟؟
محمد رضا مرکزی
خادم التدریس والافتاء
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں
8446974711
پچھلے ڈھائی ہزار سال سے یہودی دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔یہودی دانشوروں اور لیڈروں کا کہنا ہے کہ اب اس خواب کو عملی جامہ پہنا نے کا وقت آ چکا ہے۔اسرائیل کا قیام اس خواب کا پہلا قدم ہے۔ دوسرا قدم یروشلم اور مسجد اقصیٰ پر ناجائز قبضہ کرنا ہے ۔یہودیو ں کا ماننا ہے کہ اس جگہ پر ڈھائی ہزار سال  پہلے بہت ہی عظیم الشان سلیمانی مندر تھا۔یہ مندر جسے وہ ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔یہودیوں کی عظمت کی نشانی ہے۔اسے رومن بادشاہوں نے تباہ کر دیا تھا۔جب تک ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر نہیں ہوگا دنیا میں یہودیوں کی بادشاہت قائم نہیں ہو سکتی۔اس ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کرنا دنیا کے ہر یہودی کا خواب ہے۔دنیا کے یہودی اپنی دولت،صلاحیت اورطاقت اس ہیکل کی تعمیر پر صرف کرنے کے لئے تیار ہیں۔۱۹۶۸ء میں جب یہودیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تھا ،اس کے بعد سے وہ دن رات مسجد اقصیٰ کو شہید کر کہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔اس سازش میں امریکی یہودی پیش پیش ہیں جواس خواب کو پورا کرنے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔یہودیوں کا ماننا ہے کہ ہیکل سلیمانی آسمان سے اترے گااور پھر یہودیوں کی عظمت کا دور شروع ہوگا،جودو ہزار برس تک قائم رہے گا۔یہودی دنیا کی سب سے سپر پاور طاقت بن جائیں گے۔اس کے بعد قیامت آئے گی اور دنیا تباہ ہو جائیگی۔یہودی مذہبی رہنما،سیاست داں،بزنس مین اور دانشور سمجھتے ہیں کہ پچھلے ڈھائی ہزار برس میں یہودی اتنے طاقتورنہیں بنے جتنے کہ آج ہیں۔آج ان کا دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ پر قبضہ ہے۔ان کی دشمن طاقتیں پہلے جرمنی اور پھر روس تباہ ہو چکے ہیں۔اب ان کی تیسری دشمن بنی اسلامی دنیا،اسلامی دنیا کے سب سے بڑے مخالف یاسر عرفات، معمر قذافی اور صدام حسین مارے جا چکے ہیں۔عالم اسلام میں انتشار ہے،فلسطینی،فلسطینیوں کا خون بہا رہے ہیں،مسلمان ،شیعہ،سنی میں بٹ کرخانہ جنگی کا شکار ہیں اس لئے یہی سب سے بہتر موقع ہے کہ کسی بہانے مسجد اقصیٰ کو شہید کر دیا جائے۔یہودی مانتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کی تباہی کے بعد ایک عظیم الشان ہیکل سلیمانی کا نقشہ آسمان پر ابھرے گااور مسجد کی جگہ لے لے گا۔اس مسجد کی تباہی کے ساتھ عرب دنیا سے مسلمانوں کا زبردست زوال شروع ہوگا اور اسرائیل ،مکہ،مدینہ سے لیکر مصر تک اپنا عظیم ترین اسرائیل بنانے کاخواب پورا کر لے گا۔تیل کی دو لت پر اس کا قبضہ ہو گا اور پھر وہ اپنے سائنسداں اور ماہرین کی مدد سے دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن جائے گا،اس کے لئے عیسائی دنیا اورہندو دنیا کی ضرورت ہو گی۔اس وقت یہودی وصیہونی تنظیمیں امریکہ،یوروپ،بھارت ،چین کواپنے جال میں پھانسنے کے لئے اربوں ڈالرخرچ کر رہے ہیں(ہندوستانی مسلمانوں سے نپٹنے کے لئے ہندو۔یہودی(اسرائیلی)اتحاد تو ہو ہی چکا ہے یہ اتحاد۲۰۰۶ء میں ہوا)ہر ملک کی میڈیا پر قبضہ کر رہے ہیں،یہ صیہونی پلان ہے جس کی تیاری یہودی دنیا پچھلے کئی سالوں سے کر رہی تھی آج مسجد اقصیٰ کے ارد گرد اس طرح کھدائی کی جا رہی ہے کہ اندر ہی اندر یہ مسجد کمزور ہو کر کسی بھی لمحہ زمین بوس ہو جائے اس مسجد کے گرتے ہی پوری دنیا میں ہنگامے شروع ہو جائیں گے اس کا فائدہ اٹھا کر اسرائیلی فوج اس پورے علا قہ پر قبضہ کرلے گی اور پھر راتوں رات ہیکل سلیمانی کی تعمیر شروع ہو جائے گی۔ آناً فاناً تعمیر بھی کر دی جائے گی..
آج یروشلم میں جو ہو رہا ہے وہ اچانک نہیں ہو رہا ہے۔ایک قدیم پلان کے تحت ہو رہا ہے اسرائیلی قیادت میں البتہ اس بات پر اختلاف ہے کہ اس منصوبہ پرعمل در آمد کا وقت آچکا ہے یا ابھی کچھ اور انتظار کی ضرورت ہے۔اسرائیلی وزیر دفاع’’امیر پریٹز‘‘کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو ابھی انتظار کرنا چاہئے اور پہلے ایران،حزب اللہ، حماس اور شام کی حکومت کو ٹھکانے لگا نا چاہئے۔اسرائیلی فوج کے کمانڈرجنرل’’ایموسی گلاد‘‘کا ماننا ہے کہ اس وقت کاروائی سے دنیا کے مسلمان متحد ہو جا ئیں گے اور اس سے اسرائیل کیلئے دنیا کو شیعہ ۔سنی کیمپوں میں بانٹنے کاپلان فیل ہو جائیگا۔انہوں نے اسرائیل کےسابق وزیر اعظم’’ایہوداولمرٹ‘‘ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مسجد اقصیٰ کوگرانے کے پلان کو کم ازکم ایک سال کے لئے ملتوی کر دیں۔مگر عالمی یہودی تنظیمیں اور دنیا کے ارب پتی یہودی تاجر جو اس پلان کی تکمیل پر پچھلے سو برس سے دولت لٹا رہے  ہیں اب مزید انتظار نہیں کر سکتے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کا صحیح وقت ہے،اس سے عالم اسلام میں جو انتشار پیدا ہوگا اس کے نتیجہ میں امریکہ اور یوروپ پوری طاقت سے اسلامی دنیا پر حملہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔عالمی رائے عامہ بھی اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔مسجد اقصیٰ کی شہادت سے عراق،ایران کا مسئلہ سیاسی نہیں مذہبی بن جائے گااور پوری دنیا کے غیراسلامی ملکوں اور تہذیبوں کو متحد کر کہ اسلام کے خلاف جنگ چھڑی جا سکی گی۔ایسا لگتا ہے کہ فی الحال یہودی مسجداقصیٰ کے گرد بمباری کر کہ عالم اسلام کے رد عمل کو بھانپ رہے ہیں اگر رد عمل کمزور ہوتا ہے تووہ اپنی کاروائی جاری رکھیں گے اور رد عمل سخت ہوتا ہے تو وہ چند مہینوں کے لئے اپنی کاروائی بند کر دیں گے تاکہ عالم اسلام میں اختلافات اور بڑھ جائیں۔ایران اور سعودی عرب میں جنگ چھڑ جائے،سعودیوں کو یہودیوں کی شکل وصورت دے کر رقص وسرور کی محافل میں مصروف کر دیا جائے.. اور مسلمان مختلف فرقہ میں بٹ جائیں اور پھرموقع کا فائدہ اٹھا کراچانک مسجد اقصیٰ پر قبضہ کر لیا جائے اور یہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کے شیطانی خواب کو پورا کردیا جائے۔
شوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا ہر جگہ فی الحال سرخ گائے کی قربانی چرچے میں ہے… آؤ ہم بھی کچھ چرچہ کر لیتے ہیں….
صہیونیوں کا عقیدہ ہے کہ جب تک ہیکل سلیمانی کی تعمیر نہیں ہوتی ، اُس وقت تک مسیحا (دجال) اس دنیا میں نہیں آئے گا، ہیکل سلیمانی کی یہ تیسری تعمیر ہوگی جو صہیونیوں کے نزدیک آخری ہے۔
ہیکل سلیمانی کی از سرنو تعمیر کے لیے ماڈل بھی تیار ہے جو ماہرین آثار قدیمہ کی مدد سے تیار کیا گیا ہے اور انسانی اور مالی وسائل بھی میسر ہیں تاہم اس کی تعمیر میں دو مشکلات موجود تھیں جس کی وجہ سے یہ اب تک ممکن نہ ہوسکا۔
پہلی یہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے صہیونیوں کو گناہوں سے پاک کرنے والی قربانی کی شرط ہے جس کے لیے قدیم یہودی روایات کے مطابق قربانی کے لیے ایک ایسی سرخ بچھیا درکار ہے جس کا ایک بال بھی کسی اور رنگ حتیٰ کہ بھورا بھی نہ ہو۔
دوسری دقت ہیکل سلیمانی کے تعمیر کا مقام ہے، صہیونیوں کے مطابق ہیکل سلیمانی کو جس مقام پر تعمیر کیا جانا ہے ، وہ عین وہی مقام ہے جہاں پر اس وقت مسجد اقصٰی موجود ہے۔
یعنی ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا صاف اور سیدھا سا مطلب مسجد اقصیٰ کی شہادت ہے۔ اگر مسجد اقصیٰ محض مسلمانوں کا مقدس مقام ہوتا تو ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہوتی یا نہ ہوتی مگر صہیونی اسے اب تک شہید کرچکے ہوتے تاہم یہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کا بھی مقدس ترین مقام ہے، یہی وجہ ہے کہ صہیونیوں کو اس کی شہادت کے لیے باقاعدہ ماحول بنانا پڑرہا ہے۔
گزشتہ برس ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیےقائم کردہ خصوصی ادارے دی ٹیمپل انسٹیٹیوٹ کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ ’مکمل طور پر سرخ بچھیا کی پیدائش اسرائیل میں ہوئی ہے، جس کے ساتھ ہی دنیا کے اختتام کا باب شروع ہوگیا اور کائنات اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے’۔
اس ہیکل کی دوبارہ تعمیر کیلئے عقیدت مند لوگ بائبل کی کتب الاعداد (بُک آف نمبرز) کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا ہے کہ ’’ایک ایسی سرخ بچھیا کی قربانی پیش کی جائے جو بے عیب ہو، اس میں کوئی داغ نہ ہو، اور جسے کبھی ہل میں نہ جوتا گیا ہو۔‘‘ صرف ایسی ہی قربانی کے بعد ہیکل دوبارہ تعمیر ہو سکے گا
ادارے کا کہنا تھا ‘اب یروشلم میں تیسرے معبد کی تعمیر ہو گی، جس کے سامنے اس بچھیا کی قربانی پیش کی جائے گی، اور پھر مسیح (دجال) کا ظہور ہو جائے گا’۔
ان سرخ بچھیاؤں کو مقبوضہ بیت المقدس لانے میں اہم کردار یتشاک مامو نے ادا کیا ہے جن کا تعلق یوون یروشلم نامی یہودی گروپ سے ہے اور یہ گروپ قدیم شہر میں ہیکل کی از سر نو تعمیر کیلئے پرعزم ہے۔
یتشاک مامو کے مطابق، سرخ بچھیا کی امریکا سے برآمد پر سخت ممانعت کے سخت قوانین کو نرم کرنے کیلئے، بچھڑوں کی بطور پالتو جانور درجہ بندی ان سرخ بچھیاؤں کو مقبوضہ بیت المقدس لانے میں اہم کردار یتشاک مامو نے ادا کیا ہے جن کا تعلق یوون یروشلم نامی یہودی گروپ سے ہے اور یہ گروپ قدیم شہر میں ہیکل کی از سر نو تعمیر کیلئے پرعزم ہے۔
۔ اب ان گائیوں کو مقبوضہ بیت المقدس پہنچا دیا گیا ہے جہاں ایک وسیع و عریض سفید رنگ کی قربان گاہ پر لیجا کر ان کی قربانی پیش کی جائے گی، یہ قربان گاہ زیتون کے پہاڑ کے سامنے ہے جہاں جلد ہی ان گائیوں کو جلایا جائے گا۔
یہودیوں کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے لے کر 70 عیسوی میں دوسرے ہیکل کی تباہی تک 9 گائے کی قربانی دی جاچکی ہے اور اب 10ویں قربانی مسیح کےدور کا آغاز ہوگا۔
انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین ربّیوں کے ہمراہ روز اس بچھیا کا معائنہ کرتے ہیں، اگر صورتحال مطلوبہ شرائط کے مطابق رہی اور یہ بچھیا کسی حادثے یا طبعی موت کا شکار نہیں ہوئی تو اس کی قربانی ایک مخصوص عمر میں مجوزہ ہیکل سلیمانی کے دروازے کے باہر کی جائے گی جو ممکنہ طور پر رواں برس اپریل میں ہوسکتی ہے۔
یوں یہودیوں کو تیسرے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے سرخ بچھڑے سمیت سارے ہی اسباب مہیا ہوگئے ہیں اور بس اب اس کے لیے مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کے لیے مناسب موقع کا انتظار کررہے ہیں
ان سب باتوں کی روشنی میں اگر غزہ کی موجودہ جنگ کو دیکھیں تو بہت سارے حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا ہوگا متحد ہونا ہوگا…پلان بنانا ہو گا.. آگے کیا کرنا ہے اہل علم وفکر و دانش کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا… یہودی مکمل تیار ہیں اور ہم مکمل ناکام ونامال ومنال والے بھیک منگے بنے ہوئے ہیں ہمارے جوان بے راہ روی کا شکار ہیں… اسلامی تہذیب وتمدن اور شریعت پر عمل ہم میں نہ رہا.. ذلت اور رسوائی ہمارا مقدر بنتی جارہی ہے… ابراہیم سا ایماں آج بھی پیدا کرنا ہو گا تاکہ آسمان سے گرتے ہوئے اسرائیلی میزائل…. آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا کا مظہر بن جائیں… اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے پر ملک کے حالات اور قوانین کی پابندی اجازت نہیں دیتی…. واللہ اعلم بالصواب
razamarkazi@gmail.com

ڈریم الیون گیم کھیلنا اور پیسہ لگانا حرام

ڈریم الیون گیم کھیلنا اور پیسہ لگانا حرام

محمد رضا مرکزی
خادم التدریس والافتاء
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں
8446974711
کھیل کے سلسلے میں شریعت کے بنیادی اصول یہ ہیں (١)جن کھیلوں کی احادیث و آثار میں ممانعت آگئی ہے وہ ناجائز ہیں جیسے نرد ،شطرنج کبوتر بازی اور جانوروں کو لڑانا (٢) جو کھیل کسی حرام و معصیت پر مشتمل ہوں وہ ا س معصیت یا حرام کی وجہ سے ناجائز ہوں گے (٣) جو کھیل فرائض اور حقوق واجبہ سے غافل کرنے والے ہوں وہ بھی ناجائز ہیں (٤)جس کھیل کا کوئی مقصد نہ ہو بلا مقصد محض وقت گزاری کے لیے کھیلا جائے وہ بھی ناجائز ہوگا کیوں کہ یہ اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ایک لغو کام میں ضائع کرنا ہے…
تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ ڈریم 11 ایک کھیل کا پلیٹ فارم ہے جس میں مختلف مقابلہ کروائے جاتے ہیں اور داخلہ فیس جمع کی جاتی اور پھر جیتنے والوں کو انعام ملتا ہے ۔
اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ یہ صورت چوں کہ جوئے اور قمار کی ہے.. اس لیے اس طرح رقم لگا کر مقابلہ میں داخل ہو کر پیسے کمانا جائز نہیں ہے۔
گیم کو لہو ولعب کے طور پر ہی کھیلا جاتا ہے.. لہو و لعب کے طور پر  کھیلنا چاہے موبائل یا کمپیوٹر پر ہو یا اس کےعلاوہ، بہرحال ممنوع ہے کہ اسلام لہو و لعب میں مشغول ہو کر وقت برباد  کرنے کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ نیز موبائل وغیرہ پر کھیلے جانے والے گیمز میں عموماً  غیر شرعی چیزیں جیسے  میوز ک، بے پردگی وغیرہ بھی  ہوتی  ہے جوکہ ناجائز ہے بلکہ بعض گیمز ایسے  ہیں جن میں معاذاللہ اسلامی شعائر وغیرہ کی بے ادبی  کا پہلو بھی موجود ہوتا ہے، ایسے گیمز کا حکم اور سخت ہے۔  لہٰذا بپ جی کھیلنا، جائز نہیں۔
قوم مسلم کے جوانوں کی اکثریت انھیں بلاؤں میں مبتلا ہے نماز، روزہ، تراویح، ذکر ودعا سے کوئی تعلق نہیں…. ذرا سوچیں پوری دنیا ہمارے خلاف متحد ہو چکی ہے اور ہم جان بوجھ کر سستی میں پڑے ہیں… فلسطین کے بچے بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان دیے رہے ہیں اور ہم گیم میں حلال کمائی برباد کر رہے ہیں …. کیا مسلمان ایسا ہی ہوتا ہے… ڈرو اللہ سے اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے.. جب پکڑ میں آجائیں گے (اللہ نہ کرے) تو بستر پر ایڑیاں رگڑتے رہ جائیں گے موت کی تمنا کریں اور موت دنیا کےلئے عبرت بن جائیں گی…رمضان المبارک جیسے مقدس ایام میں بھی ہم کرکٹ ٹیم بنانے اور حرام کاری میں لگے ہیں.. الامان والحفیظ یہود و نصاری کے دیئے ہوئے خوبصورت دھوکہ میں ہم آ گئے ہیں…

razamarkazi@gmail.com

روزہ اور انسانی صحت مندی

روزہ اور انسانی صحت مندی
محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتاء الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں
8446974711
روزے کو عربی زبان میں ”صوم” کہتے ہیں اور ” صوم” کے لغوی معنیٰ ہیں”رکنا”، اصطلاحِ شریعت میں صبح صادق کے طلوع ہونے سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک اللہ تعالیٰ کے قرب اور اجر و ثواب کی نیت سے قصداً کھانے، پینے اور نفسانی خواہشات سے رُکے رہنے کا نام ”روزہ” ہے.
روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط نفس(نفس پر قابو) اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذَرِیعے آدَمی گناہوں سے رکتا ہے۔
روزہ سے جہاں روح کو طاقت ملتی ہے، وہیں اس سے بدن کی بھی اصلاح ہوتی ہے. اس لیے کہ اکثر امراض معدہ کی خرابی کی بناء پر پیدا ہوتے ہیں (چنانچہ کہا جاتا ہے ”المعدة ام الأمراضِ“ معدہ بیماریوں کی جڑ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ انسان کے لیے سب سے خراب بات اپنے شکم کو پر کرنا ہے. لہٰذا جب پیٹ کا بھرنا۔ امراض اور بیماریوں کا پیش خیمہ ہے، تو اس کا علاج یہ ہے کہ پیٹ کو خالی رکھا جائے اور روزہ کے اندر یہی بات ہے کہ پیٹ کو خالی رکھا جاتا ہے۔ جس سے بدن کی اصلاح ہوجاتی ہے اور آدمی بہت سے امراض سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
روزہ کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے آدمی کے اندر صبر و استقامت کی قوت پیدا ہوتی ہے (جو انسان کے لیے بڑی خوبی کی چیز ہے) روزہ دار کے سامنے عمدہ اور مرغوب غذائیں ٹھنڈا اور شیریں پانی رکھا رہتا ہے؛ مگر ان کی طرف نگاہ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتا؛ حالانکہ بظاہر اس کو ان چیزوں کے استعمال کرنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے؛ لیکن اس کا ضمیر اس کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنے روزہ کو برباد کرکے خدا کے غضب کا مستحق بنے..ایک مہینہ کی یہ مشق و تمرین لامحالہ انسان کے اندر استقلال و استقامت کی طاقت پیدا کرے گی؛ چنانچہ ماہرین نفسیات نے اپنے علم و تجربہ کی بنیاد پر یہ بات کہی ہے کہ روزہ سے زیادہ ارادوں میں پختگی اور عزائم میں پائیداری پیدا کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہے؛ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے بطور خاص جوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے:
اے جوانوں! تم میں سے جس کے اندر استطاعت ہو وہ ضرور نکاح کرے.اس لیے کہ نکاح نگاہوں کو پست رکھنے والا اور فرج کی حفاظت کرنے والا ہے اور جو نکاح کی طاقت نہیں رکھتا وہ اپنے اوپر روزہ کو لازم کرلے؛ اس لیے کہ روزہ اس کے لیے بندش کا کام دے گا۔
ایک موقع پر اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا:
ہر چیز کی زکوٰة ہے اور جسم کی زکوٰة روزہ ہے اور روزہ نصف صبر ہے.
اس حدیث پاک میں روزہ کو نصف صبر اس لیے فرمایاگیا ہے کہ انسان کے اندر تین قوتیں ہیں ایک قوت شہوانی، دوسری قوت غضبی اور تیسری قوت روحانی اور روزہ سے انسان قوت شہوانی پر غالب آجاتا ہے تو گویا اُسے نصف صبر حاصل ہوگیا۔
احادیث مبارکہ سے مستفادہوا کہ روزہ اجر و ثواب کے ساتھ ساتھ حصولِ صحت کا بھی ذَرِیعہ ہے۔اب تو سائنسدان بھی اپنی تحقیقات میں اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں ۔ جیسا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کا پروفیسرمورپالڈ (MOORE PALID) کہتا ہے : ’’میں اسلامی علوم پڑھ رہا تھا جب روزوں کے بارے میں پڑھا تو اُچھل پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کوکیسا عظیم الشان نسخہ دیا ہے! مجھے بھی شوق ہوا، لہٰذا میں نے مسلمانوں کی طرز پر روزے رکھنے شروع کردئیے ۔ عرصۂ دراز سے میرے معدے پرورم تھا، کچھ ہی دِنوں کے بعد مجھے تکلیف میں کمی محسوس ہوئی میں روزے رکھتا رہا یہاں تک کہ ایک مہینے میں میرا مرض بالکل ختم ہوگیا..
ہالینڈکاپادری ایلف گال(ALF GAAL) کہتا ہے: میں نے شوگر، دل اور معدے کے مریضوں کو مسلسل 30 دن روزے رکھوائے، نَتیجتاً شوگر والوں کی شوگر کنڑول ہوگئی ، دِل کے مریضوں کی گھبرا ہٹ اور سانس کا پھولنا کم ہو ا اور معدے کے مریضوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ایک انگریز ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ (Sigmund Freud) کا بیان ہے،
روزے سے جسمانی کھچاؤ،ذِ ہنی ڈِپریشن اورنفسیاتی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے۔
فی نفسہ روزے سے کوئی بیمار نہیں ہوتا بلکہ سحری و اِفطاری میں بے اِحتیاطیوں اور بدپرہیزیوں کے سبب نیزدونوں وَقت خوب مُرَغّن(یعنی تیل ،گھی والی ) اور تلی ہوئی غذاؤں کے اِستعمال اور رات بھر وقتاً فوقتاً کھاتے پیتے رہنے سے روزہ دار بیمار ہوجاتا ہے، لہٰذا سحری اور اِفطار کے وَقت کھانے پینے میں اِحتیاط برتنی چاہئے، رات کے دَوران پیٹ میں غذا کا اتنا زیادہ بھی ذخیرہ نہ کرلیا جائے کہ دن بھر ڈَکاریں آتی رہیں اور روزے میں بھوک پیاس کا اِحساس ہی نہ رہے، اگر بھوک پیاس کا اِحساس ہی نہ رہا تو پھر روزے کا لطف ہی کیا ہے! دیکھا جائے تو ایک طرح سے روزے کا مزا ہی اِس بات میں ہے کہ سخت گرمی ہو ، شدتِ پیاس سے لب سوکھ گئے ہوں اور بھوک سے خوب نڈھال ہوچکے ہوں..
جس نے بغیر شرعی اجازت اور بیماری کے رمضان شریف کا ایک روزہ بھی توڑا اسے عمر بھر کے روزے کفایت نہیں کر سکتے اگرچہ وہ عمر بھر روزے رکھے..
اسلام کی بنیاد پانچ چيزوں پر ہے : یہ گواہی دینی کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئي معبود برحق نہیں ، اوریقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں ، اورنماز قائم کرنا ، زکوۃ ادا کرنا ، حج کرنا ، اوررمضان المبارک کے روزے رکھنا..
لھذا جوکوئي بھی روزہ نہ رکھے اس نے ارکان اسلام کاایک رکن ترک کیا ، اورکبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا ، بلکہ بعض سلف صالحین نے تو اسے کافر اورمرتد قرار دیا ہے ، اللہ تعالی اس سے بچائے ۔ ہماری حفاظت فرمائے آمین ثم آمین
razamarkazi@gmail.com

مدارس کے چندے کا اعلان

مدارسِ اسلامیہ کے
تعاون و چندہ کے اعلان میں
غربت کا حوالہ اور اس کے مضر اثرات
•┈┅━❀❁✿✾🌹​​​​​​🌹🌹​​​​​🌹✾✿❁❀━┅┈•​
یہ ایک تلخ حقیقت ہےکہ عموما چندے کا اعلان اس طرح کیا جاتا ہے:
“مدرسے میں اتنے یتیم اور غریب بچے پڑھتے ہیں، جن کی جملہ ضروریات کا کفیل مدرسہ ہی ہوتا ہے، مدرسے کا سالانہ خرچ تقریباً ….اتنا ہےجو آپ لوگوں کے چندے سے پورا کیا جاتا ہے!لہٰذا زکوة، صدقہ، فطرہ اور امداد سے -اللہ کے لیے- مدرسے کا تعاون فرماکر ثواب دارین حاصل کریں”!! غریب بچوں کے لیے دست تعاون دراز کریں…!!! اب بتائیں کیا غربت کے حوالے سے اعلان کرنا مفید ہے؟؟؟

ہم اپنے مدرسوں کا اعلان شانِ بےنیازی کے ساتھ یوں کیوں نہیں کرتے
“حضرات یہ مدارس دنیا میں دین و علم کی بقا و اشاعت اور مسلمانوں کی دینی و شرعی ضرورتوں کے مراکز اور سب سے بڑھ کر ملت اسلامیہ کی شان، بان و آن ہیں؛ چنانچہ مدارس کی بقا گویا اسلام کی بقا اور تحفظ ہے! اور مدارس کے تحفظ و بقا میں حصہ لینا اہل اسلام کی اجتماعی ذمےداری ہے!
لہٰذا! جس کو اسلام کی اشاعت و بقا میں حصہ لینا ہو وہ تعاون کرے”!!
لیکن ہمارا قدیم طرز عمل لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ مدارس میں غریب اور یتیم بچے رہتے ہیں جو ہماری زکوة اور صدقات پر پلتے ہیں؛ پھر اس سے یہ ذہنیت پروان چڑھتی ہے کہ مدارس مالداروں کے بچوں کے لیے نہیں.. اور مدرسے میں اپنے بچے کو بھیجنا ایک امیر کبیر اپنی توہین سمجھتا ہے…
اس لیے خدارا! ہم اپنی روش کو بدلیں اور استغناء کے ساتھ اعلان کریں کہ مدرسہ محتاج نہیں؛ بلکہ ہم ضرورت مند ہیں اللہ کو راضی کرنے کے..اس لئے جس کو اللہ کی رضا اور اسلام کی حفاظت مطلوب ہو وہ چندہ دے…اس طرح دین کی بھی شان ہے اور مدارس کی اہمیت بھی لوگوں کے اندر ہوگی اور مزے کی بات یہ ہے کہ چندہ بھی زیادہ ہوگا… بہت سے سفراء جو بڑی شان بے نیازی کے ساتھ اعلان و اطلاع کرتے ہیں ان کا چندہ ان سفرا سے زیادہ ہوتا ہے جو چاپلوسی کے انداز میں اعلان کرتے ہیں….
نہ اپنے آپ کو ذلیل کریں نہ اسلامی مدارس کو اور نہ علم دین کو کچھ سوچ کر قدم بڑھائیں آپ کی ایک غلطی پوری قوم کی غلطی سمجھی جائے گی.. اللہ عقل سلیم و جمیل سے نوازے آمین ثم آمین
منقول
محمد رضا مرکزی
خادم التدریس والافتاء
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں
8446974711
ہمارے جامعہ کے لیے ضروری کچھ مدد کریں اوپر کے نمبر پر پے کریں

نماز مومن کی یا مومنوں کی معراج ہے حدیث ہے یا نہیں؟

نماز مومن کی معراج ہے کیا یہ حدیث ہے یا بزرگوں کا ارشاد ہے ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الصلاة معراج المؤمن
مذکورۃ قول بظاہر نظر حدیث نہیں بلکہ علماء کا مقولہ معلوم ہوتا ہے۔
لہذا اسے بطور منقول ہے کہہ کر بیان کیا جائے فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ کر بیان نہ کیا جائے۔
اس قول کو بعض کتب تفسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہے لیکن محدثین نے اس قول کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کیا بلکہ ایسے الفاظ سے نقل کیا جو بظاہر مقولہ کے ہی طور پر لکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ کتب مصادر (جہاں سندا حدیث منقول ہو) میں بھی کافی تلاش کے باوجود ہمیں نہیں ملی۔
والتفصیل ذلک:
علامہ مناوی رحمہ اللہ فیض القدیر میں،علامہ غزی رحمہ اللہ نے حسن التنبہ میں اور علامہ ملاعلی قاری رحمہ اللہ مرقاۃ میں اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیے بغیر بطور مقولہ کے لکھا ہے۔
چناچہ فیض القدیر میں ہے:
هي (الصلاۃ) معراج المؤمن.
(فیض القدیر، ١/ ٦٣٥)
اور علامہ علی قاری رحمہ اللہ مرقاۃ میں متعدد مقام پر اس قول کو نقل فرمایا۔
چناچہ فرماتے ہیں:
ولذا قيل :الصلاة معراج المؤمن.
(مرقاة المفاتيح ، ٣/ ٢٣٨)
هي معراج المؤمن
(مرقاة المفاتيح ، ٣/ ٢٣٣)
ولہذا ورد: الصلاة معراج المؤمن.
(مرقاة المفاتيح ، ١/ ١٣٤)
اسی طرح علامہ غزی رحمہ اللہ نے بطور قول کے حسن تنبیہ میں ذکر کیا ہیں:
أنَّ الصلاة معراج المؤمنين إلى الله تعالى۔
(حسن التنبه لما ورد في التشبه ٤/‏ ٥٣٥)
ان کے علاؤہ بھی محدثین نے جب بیان کیا تو حدیث ہونے کی صراحت نہیں فرمائی ہے۔ لہذا حدیث کہہ کر اس کو بیان نہ کیا جائے۔
/وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم

محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں

شرعی عدالت واٹس ایپ گروپ

ایڈمن: اسلامک معاشرہ یوٹیوب چینل

👍Plzzzz 🔀 subscribe

islamic muashra

🛑 youtube channel 🛑

شرعی عدالت یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں..

ماہ رمضان المبارک کا چاند اور پہلی رات کی فضیلت


ماہ رمضان کا چاند اور رمضان المبارک کی پہلی شب کی فضیلت
✍️ محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتاء
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں
📱8446974711
🌙 رؤیت ہلال کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
چاند کی رؤیت کی بنیاد پر روزہ رکھو اور چاند کی رؤیت کی بنیاد پر افطار کرو اور جب چاند پوشیدہ ہوجائے تو مہینے کے 30 دن پورے کرلو۔ (جامع ترمذی)
چاند دیکھکر روزہ رکھنا شروع کرو اور چاند دیکھکر افطار(عید )کرو اور اگرابر ہوتو شعبان کی گنتی پوری کرلو… روزہ نہ رکھو جبتک چاند نہ دیکھ لو اور اگر ابر ہوتو مقدار پوری کرلو (تیس دن)
پانچ مہینوں کا چاند دیکھنا واجب کفایہ ہے۔
(١)شعبان
(٢)رمضان
(٣)شوال
(٤)ذی قعدہ
(٥)ذی الحجہ
(٤)شعبان کی انتیس کو شام کے وقت چاند دیکھیں۔دکھائی دے تو کل روزہ رکھیں ورنہ شعبان کے تیس دن پورے کرکے رمضان کا مہینہ شروع کریں۔
مطلع نہ ہونے کی صورت میں صرف رمضان کا ثبوت ایک مسلمان عاقل بالغ مستور یا عادل کی گواہی سے ہوجاتا ہے۔ رمضان کے علاوہ باقی مہینوں کے چاند کےلیے دومرد یاایک مرد اور دوعورتیں گواہی دیں اور سب عادل ہوں۔
عادل:کا مطلب جو گناہ کبیرہ سے بچتاہو اور صغیرہ پر اصرار نہ کرتا ہو اور ایسا کام نہ کرتا ہو جو مروت کے خلاف ہو جیسے بازار میں کھانا۔
مستور:جسکا ظاہر حال شرع کے مطابق ہو مگر باطن کا حال معلوم نہی۔
جس عادل شخص نے رمضان کا چاند دیکھا اس پر واجب ہیکہ اسی رات میں شہادت اداکرے ۔مسلہ:گاٶں میں چاند دیکھا اور وہاں کوئ شرعی قاضی وحاکم نہیں جسکے پاس گواہی دے تو گاٶں والوں کو جمع کرکے شہادت ادا کرے اور اگر یہ عادل ہے تو لوگوں پر روزہ رکھنا ضروری ہے۔
مسلہ: مطلع صاف نہ ہوتو عید کے چاند کا ثبوت عاقل بالغ عادل دومردوں یا ایک مرد دوعورتوں کی شہادت سے ہوگا۔
چاند دیکھکر اسکی طرف انگلی سے اشارہ کرنا مکروہ ہے اگرچہ دوسرے کو بتانے کےلیے ہو۔
ان احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ روزہ رکھنا اور افطار کرنا رؤیت کے ساتھ خاص ہیں۔ رؤیت سے مراد جیسے کہ اس زمانے میں ہوتا تھا رویت بصری ہے یعنی آنکھ سے دیکھنا۔ اسی بنیاد پر ہمارے ہاں چاند آنکھ سے دیکھنا، شرعی شہادتیں لینا اور پھر ان شہادتوں کی بنیاد پر رویت یا عدم رویت کا اعلان کرنے کا معمول ہے۔
رؤیت کو صرف رؤیت بصری، آنکھ سے دیکھنے تک محدود نہ کیا جائے اور اسی پر ہی انحصار نہ کیا جائے، آنکھ سے دیکھنے سے مراد خواہ ننگی آنکھ سے دیکھنا ہو یا مختلف آلات دور بین وغیرہ سے دیکھنا ہو، یہ آنکھ سے دیکھنے میں ہی شامل ہے بلکہ چاند کے ہونے کا علم اگر جدید سائنس کے ذریعے حتمی اور قطعی طور پر میسر ہوجائے تو اس علم کو بھی رؤیت کہا جاتا ہے اور یہ حدیث مبارکہ سے انحراف نہ ہوگا اور نہ ہی کوئی اجتہاد ہے بلکہ یہ عین حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ایک معنی ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی علیہ السلام کو نہ ملیں۔
پہلی یہ کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو ﷲ تعالیٰ ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف ﷲ تعالیٰ نظر رحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔دوسری یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو (جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) ﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔تیسرے یہ کہ فرشتے ہر رات اور دن ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔چوتھے یہ کہ ﷲ تعالیٰ جنت کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے میرے (نیک) بندوں کے لئے مزین ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے۔پانچواں یہ کہ جب ماہ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو ﷲ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمادیتا ہے۔رمضان کے اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی لمحہ ضائع اور بے کار جانے نہیں دینا چاہیے۔
ایک اور حدیث پاک پڑھیں ماہ رمضان کی پہلی شب کے تعلق سے…..
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا، اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پس ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک ندا دینے والا پکارتا ہے: اے طالب خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی! رک جا، اور اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔ ماہ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے…
اے مسلمانوں! ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہو گا… کہ رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی رحمتوں کی موسلا دھار بارش مومنین پر برسنا شروع ہو جاتی ہے.. پر افسوس صد ہزار افسوس ہماری راتیں، ہمارے شب روز، روز اول ہی سے سیر و تفریح اور ہوٹلوں کے چکر لگانے اور موبائل پر چیٹنگ اور بد نظری اور بے حیائی کرتے گزر جاتے ہیں… ایسا لگتا ہے شیطان تو قید ہو گیا پر یہ شریر مخلوق کون ہے جو رمضان میں بھی گناہوں سے دور نہیں ہے…الامان والحفیظ

razamarkazi@gmail.com

معراج کا تحفہ نماز

معراج کا تحفہ نماز
محمد رضا مرکزی
خادم التدریس والافتاء
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں
8446974711
جمہور علماء کے نزدیک 27 رجب کو معراج کا واقعہ پیش آیا ۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدر و منزلت اور شان بیان کرنا ہے.
ہجرت سے ایک سال یا ڈیڑھ سال پیشتر پیر کے دن، رجب کی ستائیسویں تاریخ کو رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج کروائی گئی.
رجب المرجب کی ستائیسویں شب بسلسلہ معراجِ النبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ پاک وعبد خاص کو اپنے دیدار پاک اور عظیم قدرتوں کے مشاہدہ کے علاوہ مجرموں کے عذاب کا معائنہ کرایا. تاکہ آپ کی امت ان جرائم سے محفوظ رہ کر ان گناہوں کے ہولناک عذاب سے بچے.
جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہِ الوہیت میں حاضر ہوئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے آپ پر پچاس نمازیں فرض کیں. اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بار بار سفارش کی کہ آپ کی امت اتنی نمازیں نہیں پڑھ سکتی اپنے رب کے پاس جائیے اور نمازیں کم کرائیےحتی کہ یہ نمازیں پانچ ہو گئیں…
نبی صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے نماز کا تحفہ رب کی بارگاہ سے لے کر آئیں .. معراج کا حاصل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے..اور دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں اس طرح آپ نے امت کے لیے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ دن میں پانچ مرتبہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو اور اس طرح نماز پڑھے کہ حسن الہی کے جلوؤں میں ڈوب جائے. گویا آپ نے خود ایک مرتبہ معراج کی اور امت کو دن میں پانچ مرتبہ معراج کا تحفہ نماز کی شکل میں دے کر اللہ کی بارگاہ کی پانچ مرتبہ کی حاضری عطا فرما دی…
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں پہلے پچاس (وقت کی) نماز (فرض ہوئی) تھیں، اور غسل جنابت سات بار کرنے کا حکم تھا، اسی طرح پیشاب کپڑے میں لگ جائے تو سات بار دھونے کا حکم تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی امت پر برابر اللہ تعالیٰ سے تخفیف کا) سوال کرتے رہے، یہاں تک کہ نماز پانچ کر دی گئیں، جنابت کا غسل ایک بار رہ گیا، اور پیشاب کپڑے میں لگ جائے تو اسے بھی ایک بار دھونا رہ گیا۔
 (سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ: 247)
معراج میں اولًایہ احکام دیئے گئے،پھر وہاں ہی منسوخ ہوگئے،جیسا کہ آگے آرہا ہے ان احکام پر عمل کسی نے نہیں کیا کیونکہ عمل سے پہلے نسخ جائز ہے۔
( تینوں نسخ معراج کی رات ہی میں ہوگئے۔بعض نے فرمایا کہ شروع اسلام میں غسل اور کپڑا دھونا سات سات بار رہا جس پر کچھ روزعمل ہوا).
وہ تحفہ کو رب نے اپنے محبوب کو بلا کر خلوتوں میں آسمانوں سے آگے عزت و احترام سے دیا آج مسلمانوں نے اس تحفہ کے ساتھ کیا سلوک کیا….. مسجدیں خالی، نمازی صرف جمعہ وعید والے…
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں کسی مسلمان کے نماز چھوڑ دینے کا تصور ہی نہیں تھا ، یہاں تک کہ جو لوگ اندر سے مسلمان نہیں تھے اور بعض فوائد کیلئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے، وہ بھی پابندی سے نماز پڑھتے تھے کہ کہیں ان کا نفاق ظاہر نہ ہو جائے۔
  لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ مسلمان مسجد تو خوبصورت سے خوبصورت بناتا ہے، اور اس میں آپس میں مقابلہ بھی ہوتا ہے لیکن مسجدوں کی آبادی کی فکر کسی کو نہیں،  ہزاروں کی بستی میں سو نمازی بھی نہیں، الامان والحفیظ.. بقول شاعر
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب  اوصاف ِحجازی  نہ رہے

یاد رکھیں… آج مساجد و مدارس اور اسلامی تاریخی مقامات نشانے پر ہیں وجہ ظاہر ہے… اگرآج بھی مسلمان مساجد کی طرف نہیں آئیں گے تو دوسرے لوگ تو آئیں گے ہی! اندر بھیڑ بڑھا لیجیے، باہر کی بھیڑ خود ہی چھٹ جائے گی!
مقام عبرت ہے کہ جو عمل سرکار دو عالم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو، اُمت اس میں اپنی آنکھوں کیلئے ٹھنڈک محسوس نہ کرے اور اس کی جانب سے غافل ہوجائے۔ اس سے  بڑھ کر ہمارے لئے محرومی اور بدبختی کیا ہوگی؟
آج مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں… ملک عزیز میں بھی یکطرفہ کارروائی نے مضطرب کر دیا ہے…
سکون و اطمینان و سربلندی اور عزت و عظمتِ مومن فرمانبرداری رب و محبوب رب کے فرامین میں ہے…
شب معراج(بدھ کا دن گزر کر جمعرات کی شب 7 فروری) نوافل کی کثرت کریں..روزہ رکھیں… دعاؤں کا اہتمام کریں… توبہ واستغفار کی محافل منعقد کریں.. شہر کی صنعت پاورلوم کے بحران کے خاتمے کی دعا کریں.ملک کے مسلمانوں کی جان ومال عزت و آبرو کی حفاظت کی دعا کریں… رزق کی کشادگی، ایمان پر سلامتی کیساتھ خاتمہ بالخیر کی دعا کریں..

razamarkazi@gmail.com

فرائض کی ادائیگی کے بغیر نوافل کی قبولیت کا مسئلہ

سوال : کیا فرماتے ہیں، علمائے دین و مفتیان شرع مبین مسئلہ مندرجہ ذیل میں کہفرائض کی ادائیگی کے بغیر نوافل ادا کرے تو کیا نوافل ومستحسن امور قابل قبول ہونگے؟امید قوی ہیکہ جواب باصواب سے سرفراز فرمائیں گے؟ 👈سائل : احمد رضا بھائی ٹائر والے مالیگاؤںالجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب جن حضرات کے فرائض […]

فرائض کی ادائیگی کے بغیر نوافل کی قبولیت کا مسئلہ