حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
22 Wednesday May 2013
22 Wednesday May 2013
18 Saturday May 2013
قرآن مقدس اور نا سخ ومنسوخ
(مفتی)محمد رضا مر کزی،
مالیگاؤں
قرآن عظیم ایک اتھاہ ساگر ہے ۔۔دیکھنے میں محض ایک کتاب ہے مگر اس میں بے شمار علوم وفنون سموئے ہوئے ہے کہ جس تک رسائی عقل انسانی سے باہر ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہ اجمعین کے زمانے کے بعد اہل تحقیق نے اپنی اپنی بساط کے مطابق جب اپنا اپنا تحقیقی قلم دوڑایا تو قرآنی علوم کی مختلف قسمیں آشکار ہوئیں،اور آنلھیںحیرت سے پھٹی رہ گئی کہ کتاب تو ایک مگر اس میں علوم وفنون بے شمار۔انہیں علوم قرآنی میں سے ایک علم ’’ناسخ ومنسوخ‘‘کا ہے اور اس کا جاننا اتنا ضروری ہے کہ بغیر ناسخ ومنسوخ کے علم کے ایک مجتہد کے لئے احکام فقہیہ کا استخراج واستنباط نا ممکن ہے۔
نسخ کے معنی:
ایک معنی نقل کر دینا یعنی کسی تحریر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دینا ۔جیسے عرب کا مقولہ ہے ’’نسخت الکتاب‘‘ایک تحریر کو دوسری جگہ منتقل کر دیا۔اسی معنی میں یہ آیت قرآنی ہے۔’’انا کنا نستنسخ ما کنتم تعلمون‘‘یعنی وہ علم ہے جس کا تمہیں علم ہے ایک صحیفہ سے دوسرے صحیفہ کی طرف منتقل کر دیا ہم نے۔۔مگر قرآن میں نسخ کے معنی باطل کر دینا ہے اس طور پر کہ اس پر اب عمل نہیں کیا جا ئے گا۔جیسے بیوہ کی عدت کے بارے میں کہ پہلے ایک سال تھی پھر آیت ’’یتربصن با نفسھن اربعۃاشھرو عشرا‘‘نے اسے منسوخ کر کے بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن قرار دی ۔
شرائط نسخ:
شرائط نسخ کئی ہیں ۔ اول یہ کہ خطاب کے ساتھ ہو۔دوم یہ کہ منسوخ پہلے اور ناسخ بعد میں ہو۔واضح رہے کہ نسخ کے ذریعہ کسی حکم کو باطل کر کہ اس کی جگہ دوسرا حکم دینا بر بناء حکمت ہوتا ہے ۔
اقسام نسخ:
نسخ کی تین قسمیں ہیں ۔اول یہ کہ خط و حکم دونوں منسوخ ہوںجیسے حضرت ابن مالک روایت کرتے ہیں کہ پہلے ہم سورہ توبہ کے برابر ایک سورہ پڑھتے تھے جس کی اب ایک آیت یاد رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے۔۔’’لو کان لابن آدم و ادیان من ذھب لا تبغی الیہ ثلاثاو لو ان لہ ثلاثا لا تبغی الیھا رابعاو لا یملاء جوف ابن آدم الاالتراب ویتوب اللہ علی من تاب‘‘یعنی اگر آدمی کے پاس سونے کے دو پہاڑ ہوتے توتیسرے کے فکر کرتااور تین ہوتے تو چوتھے کی طرف دوڑتا۔آدمی کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرے گی اور جو کوئی توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔اس آیت کا حکم ،تلاوت اور تحریر منسوخ کر دئیے گئے ہیں ۔
دوم خط اور تحریر منسوخ ہو مگر حکم باقی ہو ۔جیسے حضرت عمر سے مروی ہے کہ ہم ایک آیت پڑھتے تھے’’لا ترغبوا الرغبۃ(بمعنی الاعراض)عن ابآئکم‘‘یعنی اپنے والدین سے رغبت(نفرت اور گریز)نہ کرو۔دوسری آیت’’الشیخ والشیخۃاذا زینا فارجمواھماالبتۃنکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم‘‘یعنی جب شادی شدہ مرد وعورت زنا میں مبتلا ہوں جائیں توانہیں رجم کرو۔۔ان دونوں آیتوں کی تحریر وتلاوت تو منسوخ ہے مگر حکم باقی ہے۔
سوم خط اور تلاوت تو باقی ہو مگر حکم منسوخ ہو جیسے پہلے حکم تھا’’اینما تولوا فثما وجہ اللہ‘‘یعنی نماز میں جدھر چاہومنہ کر کہ نماز پڑھ لو ہر جانب قبلہ ہے۔پھر یہ منسوخ کر کہ بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا اور پہلا حکم منسوخ ہو گیا۔اس کا حکم تو منسوخ ہو گیا مگر تلاوت باقی ہے۔۔اور بعد میں ’’فول وجہک شطرالمسجد الحرام‘‘نے بیت المقدس کے قبلہ کو بھی منسوخ کر دیااور کعبہ کو قبلہ بنا دیا گیا۔
وہ سورتیں جن میں ناسخ ومنسوخ دونوں نہیں ہے:
تینتالیس (۴۳)ہیں۔۔ سورہ فاتحہ،سورہ یوسف،سو رہ یسین،الحجرات،رحمن،الحدید،الصف،الجمعہ،تحریم ،ملک،الحاقہ،نوح ، جن،المرسلت،نبائ،النازعات،انفطار،المطففین،انشقاق،البروج ،الفجر،البلد،الشمس،اللیل،الضحی،الانشراح،التین،القلم ،القدر،لم یکن ، زلزال،العادیات،القارعہ،التکاثر،الہمزہ،قریش،الماعون،الکوثر،النصر،تبت یدا،اخلاص،الفلق،الناس۔۔
وہ سورتیں جن میں ناسخ ہے منسوخ نہیں :
چھ ہی(۶)ہیں۔سورہ فتح،سورہ حشر،سورہ منافقون،سورہ تغابن ،سورہ طلاق،سبح اسم ربک الاعلی۔۔
وہ سورتیں جن میں منسوخ ہیں ناسخ نہیں :
چالیس (۴۰)ہیں ۔۔الانعام ،الاعراف،یونس، ہود،رعد،الحجر،النحل،بنی اسرائیل،کہف،طہ،مومنون،النمل،قصص،عنکبوت،روم ،لقمان ، مضاجع،ملائکہ یعنی سورہ فاطر،الصافات، ص،زمر،زخرف،الدخان،جاثیہ،احقاف،سورہ محمد،ق،النجم،القمر،ممتحنہ،ن،معارج،قیامہ،دہر،عبس،الطارق،غا شیہ،التین ،الکافرون۔۔
وہ سورتیں جن میں ناسخ ومنسوخ دونوں ہیں :
چوبیس(۲۴)ہیں۔۔سورہ بقرہ، آل عمران،نسائ،مائدہ ،انفال،توبہ ،ابراہیم ،مریم،انبیاء ،نور،حج،فرقان ،الشعرائ،الاحزاب ، مومن،شوری،الذاریات،طور ،واقعہ،مجادلہ،مزمل، مدثر،تکویر ،العصر ۔
18 Saturday May 2013
اسلام میں مسواک کی اہمیت
(مفتی) محمد رضامرکزی ۔مالیگاؤں
علامہ یحیی بن شرف امام نووی شافعی فرماتے ہیں کہ۔۔ائمہ لغت نے کہا ہے کہ لکڑی سے دانتوں کے صاف کرنے کے عمل کو سواک کہتے ہیں اور سواک اس لکڑی کو بھی کہتے ہیں اور علماء کی اصطلاح میںلکڑی یا اسکی مثل کسی چیزسے دانت صاف کرنے کو سواک کہتے ہیںجس سے دانتوں کا میل اور پیلاہٹ زائل ہوجائے (شرح مسلم ، ج۱، ص ۱۲۷)
سنن نبویہ علی صاحبہا الصلوۃواسلام میں بعض سنتیں ایسی بھی ہیں جو بادی النظر میں بہت معمولی نظر آتی ہیں مگر در حقیقت وہ مہتم بالشان اور عظیم ثواب کی حامل ہیں انہیں سنن جمیلہ میں سے ایک مسواک بھی ہے ۔جس کی فضیلت واہمیت سے کتب احادیث وفقہ مالا مال ہیں ۔یہاں چند احادیث رقم کی جاتی ہیں ۔
(۱)حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایامسواک کیا کرو کہ اس میں منہ کی پاکی اور حق تعالی کی خوشنودی ہے۔
(۲)رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ جبرئیل علیہ السلام ہمیشہ مجھے مسواک کی وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خوف ہواکہ کہیں مجھ پر اور میری امت پر فرج نہ ہو جائے اگر مجھے اپنی امت پر دشواری کا خوف نہ ہوتا تو میں ان پر مسواک کو فرض کر دیتا۔مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ میںاسقدر کثرت سے مسواک کرتا ہوںکہ مجھے اپنے منہ کے اگلے حصے کے چھل جانے کا خوف ہے ۔(ابن ماجہ شریف)
ــ(۳)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایامسواک منہ صاف کرنے والی ہے اور اللہ کی رضاکا سبب ہے ۔
(۴)حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے منہ مبارک کو مسواک سے اچھی طرح مزین کرتے ۔
(۵)حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایاکہ بندہ جب مسواک کر لیتا ہے پھر نماز کو کھڑا ہوتا ہے تو ایک فرشۃاس کے پیچھے کھڑے ہو کر قرات سنتاہے پھر اس سے قریب ہوتا ہے یہاں تک کہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ دیتا ۔
(۶)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایامیرے نزدیک دورکعتیں جو مسواک کر کہ پڑ ھی جائیں افضل ہیں بے مسواک کی ستررکعتوں سے۔
(۷)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺگھر میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے مسواک کیا کرتے تھے۔(مسلم شریف،حدیث۴۹۹)
مسواک کا حکم:
ہر وضو میں مسواک سنت ہے ۔وضو کے علاوہ ان اوقات میں مستحب ہے ۔(۱)ہرنماز کے وقت (۲)تلاوت قرآن مجید کے لئے (۳)سو کر اٹھنے کے بعد(۴)منہ میں جب بھی کسی وجہ سے بد بو پیدا ہو جائے (۵)جمعہ کے دن (۶)سونے سے پہلے(۷)کھانے کے بعد (۸)سحر کے وقت(نزہۃالقاری شرح بخاری،ج۲،ص۱۶۹)
اعلی حضرت امام احمد رضا خاں محقق بریلوی قدس سرہ’’ذیل الدعاء لاحسن الوعائ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ۔۔’’جب قصد دعا ہو پہلے مسواک کرے کہ اپنے رب سے مناجات کرے گاایسی حالت میںرائحہ متغیرہ سخت نا پسند ہے خصوصاحقہ پینے والے اور تمباکو کھانے والوں کو اس ادب کی رعایت ذکر ودعا ونماز میں نہایت اہم ہے اور حضور اقدس ﷺارشاد فرماتے ہیں کہ مسواک رب کو راضی کرنے والی ہے اور ظاہر ہے کہ رضائے رب باعث حصول رب ہے ۔‘‘(احسن الوعاء لآداب الدعائ،ص۳۶)
مسواک کے دنیا وی واخروی فوائد:
مسواک کے وہ فضائل جو ائمہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے بروایت حضرت علی ،حضرت عبداللہ بن عباس،حضرت عطاء رضی اللہ تعالی عنہم سے مروی ہے ان کو عارف باللہ شیخ احمد زاہدرحمۃاللہ علیہ نے جمع فرمایاان میں سے کچھ یہاں نقل کئے جاتے ہیںکہ’’مسواک کو لازم پکڑلواور کبھی اس سے غفلت نہ کرو،مداومت کرتے رہو۔کیونکہ مسواک کرنے والے سے رحمن راضی ہوتاہے اور مسواک کرنے والے کی نماز کا ثواب ننانوے درجہ تک بڑھ جاتا ہے اور بعض روایتوں میں چارسوتک ہے۔
۱۔مسواک کی پابندی کشادگی وغنا پیدا کرتی ہے ۔
۲۔رزق کو آسان کرتی ہے۔
۳۔منہ کو پاک وصاف کرتی ہے ۔
۴۔مسوڑھوں کو مضبوط بناتی ہے ۔
۵۔درد سر میں سکون بخشتی ہے ۔اور سر کی رگوں میں سکون ہو جاتا ہے یہاں تک کہ کوئی ساکن رگ حرکت نہیں کرتی ہے۔اور کوئی چلنے والی رگ ساکن نہیں ہوتی ۔
۶۔سرکا درد اور بلغم جاتا رہتا ہے۔
۷۔دانتوں کو قوت اور آنکھو ں کو جلا بخشتی ہے ۔
۸۔معدے کو درست کرتی ہے ۔ساتھ ہی ساتھ بدن کو قوت دیتی ہے ۔
۹۔ الفاظ کی صحیح ادائیگی اورحفظ وعقل میں بھی اضافہ کرتی ہے ۔معا نیکیوں میں خوب خوب اضافہ کرتی ہے ۔
۱۰۔قلب کو پاکیزگی عطا کرتی ہے ۔
۱۱۔فرشتے خوش ہوتے ہیں اور اس سے مصافحہ کرتے ہیں اس کے چہرے کی روشنی کی وجہ سے۔
۱۲۔اور جب نماز کے لئے مسجد جاتاہے تو فرشتے اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں اور جب مسجد سے نکلتا ہے تو حاملین عرش کے فرشتے اس کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں یوں ہی حضرات انبیاء کرام ورسلان عظام علہیم السلام بھی اس کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔
۱۳۔مسواک شیطان کو ناراض اور دور کرنے والی ہے ۔
۱۴۔دہن کی صفائی اور ہضم طعام میں بھی معاون ہوتی ہے۔
۱۵۔اولاد کی کثرت کاسبب ہوتی ہے۔
۱۶۔پل صراط سے کوندتی بجلی کی طرح گذار دیتی ہے۔
۱۷۔بڑھاپے کو موخر کرتی ہے ۔اور پشت کو مضبوط بناتی ہے۔
۱۸۔قیامت کے دن مسواک کنندہ کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں ہو گا۔
۱۹۔مسواک بدن کواطاعت خداوندی کے لئے چست کرتی ہے۔
۲۰۔بوقت نزع کلمہ شہادت کو یاد دلاتی ہے ،نزع کو آسان کرتی ہے ۔
۲۱۔دانتوں کو سفید اور چمکدار کرتی ہے۔منہ کی بو پاک کرتی ہے۔حلق اور زبان کو صاف وستھراکرتی ہے۔
۲۲۔سمجھ کو تیز کرتی ہے اوررطوبت کو روکتی ہے ۔نگاہ کو تیز کرتی ہے ۔اجر یعنی نیکی کے بدلے کو بڑھاتی ہے۔
۲۳۔قبر میں وسعت وکشادگی کاسبب ہوتی ہے قبرمیںاس کی مونس وغمخوار ہوتی ہے۔
۲۴۔مسواک کرنے والے کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔اور جہنم کے دروازے اسکے لئے بند کر دیئے جاتے ہیں ۔
۲۵۔روزانہ اس سے فرشتے کہتے ہیں کہ یہ حضرات انبیاء کرام علہیم السلام کی اقتداء کرنے والا،ان کے نقش قدم پرچلنے والااور ان کی سنت وطریقہ کو اپنانے والا ہے۔
۲۶۔فرشتہ موت اس کے پاس اس صورت میں آتاہے جس صورت میںاولیاء اللہ کے پاس آتا ہے۔
۲۷۔مسواک کرنے والادنیا سے کوچ نہیں کرتاجب تک کہ ہمارے آقاﷺکے حوض سے سیراب نہ ہو جائے جو کہ مہر شدہ شراب ہے۔۔۔۔۔اور ان سب فوائدسے بڑھ کریہ ہیکہ’’یہ منہ کی طہارت کا ذریعہ اور رضائے الہی کاسبب ہے۔‘‘وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔(حاشیہ الطحطاوی علی المراقی الفلاح،ج۱،ص۳۷)
مسواک کے مکروہات:
۱۔مسواک لیٹ کر نہ کرے کہ تلی بڑھنے کا سبب ہے۔
۲۔مٹھی سے پکڑنا ممنوع ہے کہ اس سے بواسیرپیداہوتی ہے۔
۳۔مسواک کو چوسا نہ جائے کہ اس سے وسوسہ اور اندھا پن پیداہوتا ہے۔
۴۔فارغ ہونے کے بعد نہ دھونا کہ اس سے شیطان کرتا ہے۔
۵۔بیت الخلاء میں مسواک کرنا مکروہ ہے۔
۶۔مسواک کھڑی کر کہ رکھنا چاہیے اسے زمین پر نہ ڈالیں ورنہ جنون کا خطرہ ہے ۔حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص مسواک کو زمین پر رکھنے کی وجہ سے مجنون ہو جائے تو وہ اپنے نفس کے علاوہ کسی کو ملامت نہ کرئے کہ یہ خود اس کی غلطی ہے۔
۷۔انار،ریحان اور بانس کی لکڑی سے مسواک کرنا مکروہ ہے اور حضور نبی کریم ﷺ نے ریحان کی مسواک سے منع فرمایا کہ یہ محرک جذام ہے ۔
۸۔مسواک ابتداء ایک بالشت کے برابر ہونی چاہیے بعد میں اگر کم ہو جائے تو کوئی حرج نہیں اور ایک بالشت سے زیادہ لمبی نہ ہو کہ اس پر شیطان سوار ہوتا ہے ۔(ایضاً)
ایک نہایت ہی اہم اور ضروری فتوی… …مسواک کی جگہ منجن یا برش اور ٹوتھ پیسٹ کا استعمال :
منجن ،برش اور ٹوتھ پیسٹ کے استعمال سے مسواک کی سنت ادا ء نہیں ہو گی کہ ’’مسواک‘‘درخت کی ایک ایسی شاخ کو کہتے ہیں جس سے دانت کی صفائی کی جائے۔اس لحاظ سے منجن اور برش مسواک نہ ہوئے منجن کا مسواک نہ ہونا تو ظاہر ہے کہ نہ وہ درخت کی شاخ ،نہ اس میں مسواک کی طرح ریشے،نہ مسواک کی جیسی ہیئت۔اور برش میں گو کہ مسواک کی طرح ریشے ہوتے ہیں لیکن یہ درخت کی شاخ نہیں۔اور نہ اس میں مسواک کی طرح سے کڑوا پن ،اور نی ایسا مزہ پایا جاتاہے جومنہ کی بو دور کرئے اور پت وبلغم کو دور کر کہ طبعیت کو پر سکون بنائے اس لئے کہ یہ سنون مسواک کے حکم سے نہیںہو سکتے۔’’ برش‘‘ جس کو مسواک سے یک گونہ مشابہت ہے اس کے متعلق امام احمد رضا خاں محقق بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ’’اصل تو یہ ہے کہ مسواک کی سنت چھوڑ کرنصرانیوں کا برش اختیا ر کرنا ہی سخت جہالت وحماقت اور مرض قلب کی دلیل ہے ۔(فتاوی رضویہ ، ج ۱۰،ص۸۰)
اس سے معلوم ہوا کہ برش کو اختیار کرنا مسواک کی سنت کو چھوڑنا ہے ۔ہاں اگر مسواک نہ ملے تو اب ان کے استعمال سے سنت مسواک ادا ء ہو جائے گی اس کی نظیر یہ مسئلہ ہے کہ ۔۔۔مسواک مفقود ہو تو انگلی یا سنگین کپڑا اس کے قائم مقام ہے ۔اور عورتوں کے لئے ’’مسی‘‘مطلقا ادائے سنت کے لئے کافی ہے ۔عالمگیری میں ہے کہ ’’انگلی مسواک کے قائم مقام نہیں ہو سکتی ہاں اگر مسواک نہ ملے تو داہنے ہاتھ کی انگلی مسواک کے حکم میں ہو گی،ایسا ہی محیط وظہیریہ میں ہے ۔اور عورت کے لئے ’’مسی‘‘مطلقامسواک کا بدل ہے،ایسا ہی بحرالرائق اور در مختار میں بھی ہے۔’’مسواک نہ ہو یا دانت ہی نہ ہو تو کھردرا کپڑایا انگلی مسواک کے قائم مقام ہے ‘‘(بحر الرائق،ج۱،ص۷۸)
اعلی حضرت امام احمد رضا محقق بریلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’مسواک نہ ہو تو انگلی سے دانت مانجنا ادائے سنت اور حصول ثواب کے لئے کافی نہیں ۔ہاں مسواک نہ ہو تو انگلی یا کھرکھرا کپڑا ادائے سنت کر دے گااور عورت کے لئے مسواک موجود ہو تب بھی مسی ہی کافی ہے ‘‘(فتاوی رضویہ،ج۱،ص۱۴۸)
مسواک اگر چہ جمہور علماء کے نزدیک سنت ہے لیکن فر ض یا واجب نہیں ۔مگر اس کے باوجوداس کے آداب ومستحبات کی رعایت نہایت ضروری ہے۔اس میں کوتاہی کرنا او ر لاپرواہی برتنانقصان دہ ہے۔حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’اگر کسی شہر کے باشندے مسواک کا انکار کر دے تو امام وقت ان سے مرتدین کی طرح قتال کرے‘‘(خانیہ وغیرہ)
حضرت علامہ امام شعرانی رحمہ اللہ علیہ ’’کشف الغمہ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مسواک سے اعراض اور بے رغبتی کرئے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘‘۔۔پرور دگار عالم ہم تمام مسلمانوں کو اس سنت جمیلہ پر عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔۔آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
18 Saturday May 2013
(مفتی ) محمد رضا مرکزی (مالیگاؤں)
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالاکردے
دہر میں عشقِ محمد سے اجالاکردے
جس طرح حضور انور ﷺ کی مقدس ترین ذات کی تعظیم و توقیر ایمان و اسلام کا تقاضا ہے ، اسی طرح حضور انور ﷺ کے نامِ پاک کی تعظیم و توقیر کا بھی حکم وارد ہوا ہے۔ جیسا کہ صاحبِ کنزالعمال نے نامِ پاک کی تعظیم و تکریم کے تعلق سے چند حدیثیں نقل فرمائی ہیں۔
حضرت بزار سے مروی ہے حضرت ابورافع سے انھوں نے کہا کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم اپنے بچّے کا نام محمد رکھو تو اسے مارو مت اور اسے محروم نہ کرو۔
حضرت مولاے کائنات علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے منقول ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم اپنے بچّے کانام محمد رکھو تو اس کی تعظیم و توقیر کرو اور وہ جس مجلس میں جائے اس کے لیے بیٹھنے کی جگہ دو۔
حضرت دیلمی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم اپنے بچّے کانام محمدرکھو تو اسے محروم مت کرو کیوں کہ محمد نام میں بڑی برکت دی گئی ہے یہاں تک کہ اس گھر میں برکت دی گئی ہے جس گھر میں محمد نام کا شخص رہتا ہے۔
مندرجہ بالاایمان افروز روایتوں سے ثابت ہوتاہے کہ نامِ مبارک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعطیم و توقیر کے ساتھ ساتھ نام والے کا بھی ادب واحترام کرنا چاہیے ۔ جب محض محمد نام کے فرد کی عزت و تکریم کرنے کے تعلق سے احادیث میں حکم فرمایا گیا ہے تو ذاتِ اقدس و اطہر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاادب و احترام اور تعظیم و توقیر بدرجۂ اولیٰ کرنا چاہیے ۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام کے بارے میں رب العزت جل و علا یوں ارشاد فرماتا ہے : وتعزروہ وتوقروہ وتسبحوہ بکرۃ واصیلا۔ (اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام پاکی بیان کرو)
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ محبوبِ کردگار ، مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے نامِ پاک اور ذاتِ پاک کی تعظیم توقیر کو اپنی زندگی کالازمی حصہ بنالیں کہ نامِ پاک کی تعظیم سے اللہ رب العزت خوش ہوتا ہے اور اپنے بندوں کو انعامات و اعزازات سے نوازتا ہے چناں چہ ابو نعیم نے حلیہ میں حضرت وہب بن منبہ سےایک ایمان افروز واقعہ نقل فرمایا ہے۔ کہ بنی اسرائیل میں ایک نہایت ہی بدکار شخص تھا اس نے سو برس تک خداے قدیر وجبار کی ایسی ایسی نافرمانیاں کیں اور مخلوقِ خدا پر ایسے ایسے ظلم وستم ڈھائے کہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگے جب اس کا انتقال ہوا تو لوگوں نے اس کے ظلم اور بدکاریوں کی وجہ سے اسے اس لائق ہی نہیں سمجھا کہ اسے دفن کیا جائے چناں چہ نہایت ہی نفرت و حقارت کے ساتھ لوگوں نے اس کی لاش کو کوڑے خانے میں پھینک دیا جہاں پر گاؤں بھر کی غلاظت ڈالی جاتی تھی۔
یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ تھا خداے تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ فلاں گاؤں کے کوڑے دان میں ایک شخص کی لاش پڑی ہے اسے وہاں سے اٹھا کر فوراً عزت و احترام کے ساتھ کسی قبرستان میں دفن کردو۔ وہاں پہنچنے کے بعد لوگوں کے ذریعہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس کی بدکاریوں اور ظلم و ستم کی تفصیل معلوم ہوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یااللہ! سو برس کی طویل مدت سے یہ شخص تیری نافرمانی میں مبتلا رہا یہ اپنے زمانے کا بدترین شخص ہے یہ کسی عزت و تکریم کے لائق نہیں ہے۔ ارشاد خداوندی ہواکہ لوگ سچ کہتے ہیں یہ بدکار اور ظالم شخص ہے لیکن اس کی صرف ایک خوبی کی وجہ سے میں نے اس کے سارے گناہوں کو بخش دیا ہے یہ جب بھی توریت کھولتا تھا تو نامِ مبارک محمد (ﷺ) کو بوسہ دیتا اور اپنی آنکھوں سے لگاتا۔
صرف نامِ مبارک کی تعظیم و توقیر سے اللہ رب العزت جل جلالہ اپنے ایک ایسے نافرمان بندے کی مغفرت فرمادیتا ہے جو زندگی بھر اس کی نافرمانی میں مبتلا رہا تو وہ افراد کس قدر خوش نصیب اور قسمت والے ہیں جونامِ پاک کی عزت و تکریم کے ساتھ ساتھ ذاتِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلاۃ و التسلیم کی تعظیم و توقیر ایمان و اسلام کا لازمی جز سمجھتے ہوئے احترامِ نبوت کواپنی زندگی کا محبوب ترین فعل تصور کرتے ہیں ۔
سوچیے تو سہی! جب گذشتہ امت کے افراد کو اللہ رب العزت نامِ مبارک کی تعظیم وتوقیر کے سبب اس درجہ فضیلت سے سرفراز فرمائے تو ہم غلاموں اور محبوبِ خاص ، خلاصۂ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو اللہ کی رحمتِ بے کراں سے بہت زیادہ توقع رکھنی چاہیے ، ہمیں چاہیے کہ اگر نامِ مبارک کو دیکھ اور سن کر کبھی انگلیوں کا بوسہ نہ بھی لیں تو اتنا ضرور کریں کہ رسولِ مختار صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں درود و سلام کا نذرانہ پیش کریں ، اگر انگلیوں کا بوسہ لیں تو یہ سونے پر سہاگہ۔
(کنزالایمان ، دہلی نومبر 2003ءص22)