شیخ عبد القادر جیلانی کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی؟؟ تعارف غوث اعظم، مختصر سیرت غوث پاک علیہ الرحمہ

ابھی ایک پھل فروش جو رشتے میں میرے سگے ماموں ہیں ان کے پاس جانا ہوا انھوں نے بتایا ایک بد عقیدہ آیا اور کہنے لگا… اتنی نیاز کھاتے ہو تم لوگ اچھا یہ بتاؤ… شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی؟؟؟؟ اچھے خاصے لوگوں سے ماموں نے رابطہ کیا.. جن میں علماء وحفاظ اور ائمہ بھی شامل ہیں پر الامان والحفیظ کسی سے جواب نہ بن پڑھا…….. بس یہی موقع ہمارے طرف سے ملتا ہے… ہم نیازوں پر تو جم گئے… پر نمازوں سے دور…… نیاز تو جم کر یاد ہے.. پر سیرت و عبادت و اذکار و اعمال صاحب نیاز کے یاد نہ رہے…. فرض چھوڑ کر نیازیں کس فائدے کی…. اللہ خیر فرمائے….

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کامختصر تعارف

شیخ عبدُالْقادِرجِیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی ولادتِ باسعادت یکم(1) رمضان 470؁ھ جمعۃُ المبارک کو جِیلان میں ہوئی۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی کنیت ابومحمد ہے جبکہ مُحِیُّ الدِّین، محبوبِ سبحانی، غوثِ اعظم، غوثِ ثَقَلَیْن وغیرہ آپ کے القابات ہیں۔ آپ کے والدِ محترم کانام حضرت ابوصالح مُوْسیٰ جنگی دوست اور والدہ محترمہ کا نام اُمُّ الْخَیْر فاطمہ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہَاہے، آپ والدِ محترم کی طرف سے حَسَنی اور والِدہ ماجِدہ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہَا کی طرف سے حُسینی سَیِّد ہیں۔حضرتِ ابنِ جوزی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں: حضرت شیخ عبدُالقادِر جیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے11ربیعُ اْلآخِر 561 ہجری ،بعد نمازِ مغرب بغداد شریف میں وصال فرمایا، وصال کے وقت آپ کی عمر شریف تقریباً 91 سال تھی،نمازِ جنازہ شہزادۂ غوثِ اعظم حضرت سید سَیْفُ الدّین عبدالوہاب قادری رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے پڑھائی اور لاتعداد لوگوں نے جنازہ میں شرکت کی۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا مزارِ پُراَنوارعراق کے مشہور شہر بغداد شریف میں ہے،جہاں دن رات زیارت کرنے والوں کا ہجوم رہتا ہے۔(الزیل علی طبقات الحنابلۃ،۳/ ۲۵۱)
نماز جنازہ کے تعلق سے یہ بھی کتابوں میں ذکر ہے….
شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ ان کے شہزادے عبدالرزاق رحمہ اللہ نے پڑھائی تھی…

۔’’ الفتح الربانی والفیض الرحمانی،فتوح الغیب جلا الخاطر،بہجت الاسرار،آداب سلوک ‘‘ یہ سب آپ کے علم کا بحر بے کراں ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ان کی تعلیمات غوث اعظم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
محمد رضا مرکزی
خادم التدریس والافتاء
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں
8446974711
razamarkazi@gmail.com

درس گاہ غوثیت کے پروردہ فاتحین بیت المقدس

درس گاہ غوثیت کے پروردہ فاتحین بیت المقدس
مفتی محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتاء
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں
8446974711
سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ کے عہد میں بیت المقدس کی فتح میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ (561ھ..471ھ) کے مدرسہ قادریہ کا بہت بڑا کردار رہا ہے.. آپ کے مدرسہ قادریہ سے تقریباً 400 سے زائد تعلیمی ادارے منسلک تھے جن کے ذریعے آپ نے امت مسلمہ کی تقریباً کم وبیش نصف صدی سے زائد عرصہ تک علمی و ذہنی اور روحانی تربیت فرمائی.. صلیبی جنگیں، عیاش حکمراں، غافل علماء، جاہل صوفیاء، باطنی و ظاہری فتنے بیک وقت اتنے محاذ پر قائم کرنا یقینا اللہ تعالیٰ کا فضل خاص ہے.. آج بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ کچھ مردان حق ایسے ہوں جن کی نگاہ سے زنگ آلود قلوب و اذہان کو جلا عطاء ہو…
سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب القدس فتح کیا تو جس لشکر (Army) کے ذریعے بیت المقدس فتح کیا، اس آرمی میں شامل لوگوں کی بھاری اکثریت حضرت شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ کے تلامذہ کی تھی۔ گویا آپ کے مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ صرف متہجد(تہجد گزار) ، مجتہد، عابد شب زندہ دار اور علما ہی نہیں تھے بلکہ عظیم مجاہد بھی تھے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کی آدھی سے زائد فوج میں حضور غوث الاعظم علیہ الرحمہ کے عظیم مدرسہ قادریہ کے طلبہ اور کچھ فیصد لوگ فوج وہ تھے جو امام غزالی علیہ الرحمہ کے مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے چیف ایڈوائزر امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی حضور سیدنا غوث الاعظم کے شاگرد اور خلیفہ ہیں۔ آپ براہِ راست حضور غوث پاک کے شاگرد، آپ کے مرید اور خلیفہ ہیں۔ گویا تاریخ کا یہ سنہرا باب جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے رقم کیا وہ سیدنا غوث الاعظم علیہ الرحمہ کا فیض تھا۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ نے تقریباً ۳۳ برس مدرسہ قادریہ کو مختلف سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا…
آپ اس کے علاوہ بھی مختلف علاقوں میں جاتے، لیکن مرکز اصلاح و تربیت یہی مدرسہ ٹھیرا، جہاں ۱۳ علوم میں اعلیٰ تعلیم دی جاتی لیکن علم الکلام اور فلسفے کی بے فائدہ بحثیں خارج از نصاب قرار دے دی گئی تھیں۔ ان کی جگہ انھوں نے سات اسلامی اقدار ہر طالب علم کے قلب و نگاہ میں راسخ کرنے کا اہتمام کیا۔ یہ سات بنیادی نکات تھے: (۱) توحید(۲) قضا و قدر کا صحیح مفہوم (۳)حقیقت ایمان(۴) امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور اولی الامر کا حقیقی مفہوم (۵) حقیقت دنیا و آخرت (۶) مقام نبوت و انبیا (۷) حقیقت زہد۔ یہ ارکان تربیت کوئی مجرد نصابی سرگرمی نہیں بلکہ تمام متعلقین کو ان کا عملی پابند بنایا جاتا۔ ساتھ ساتھ انھوں نے پورے عالم تصوف کو اس کی کمزوریوں اور خامیوں سے پاک کرنے کا بِیڑا اُٹھایا۔ بالخصوص ۱۱۵۱ء سے ۱۱۵۵ء تک کے چار سالہ عرصے میں انھوں نے مختلف مسالک و طریقہ ہائے ارادت کو جمع کیا۔ قطب، ابدال، اوتاد اور اولیا جیسی اصطلاحات اسی پورے کام کو منظم کرنے کا عنوان تھیں۔ اس مدرسہ قادریہ میں مختلف علاقوں سے آنے والے طلبہ فیض یاب ہوئے لیکن ان علاقوں سے کہ جن پر دشمن قابض ہوچکے تھے آنے والے طلبہ کو خصوصی طور پر تربیت دے کر اپنے علاقوں میں واپس بھیجا جاتا۔ ان طلبہ میں سے بھی بالخصوص بیت المقدس سے آنے والے طلبہ کو اہمیت دی جاتی۔ یہ طلبہ ’مقادسہ‘ کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔
حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کی ان تمام سرگرمیوں میں بظاہر اس دور کے بڑے بیرونی خطرات سے کوئی تعارض دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن وہ اس امر پر یکسو تھے کہ افراد و معاشرے کی اصلاح کے بغیر کسی بڑے خطرے کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی شخصیت و مقام کا مطالعہ کرنے والے تمام مؤرخ یہ نتیجہ اخذ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر سلطان صلاح الدین ایوبی کی پشت پر اصلاحِ معاشرہ کی   یہ پوری تحریک نہ ہوتی تو وہ کبھی بیت المقدس آزاد نہیں کرواسکتے تھے۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم اور مجاہدین کو جس عظیم الشان انداز سے تیار کیا، اس میں ان کی ایمانی و اخلاقی تربیت بنیاد و ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہاں ہمیں امام غزالی، سیّد عبدالقادر جیلانی، نور الدین محمود زنگی اور صلاح الدین ایوبی علیہم الرحمہ جیسی چار عظیم شخصیات کی جدوجہد ایک سنگم پر یکجا ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ دونوں سپہ سالاروں نے ان دونوں جلیل القدر ہستیوں اور ان کے مخلص شاگردوں کے اثرات و خدمات سے بھرپور استفادہ کیا۔ فقہ حنبلی کی معروف کتاب المُغْنِي کے مؤلف ،موقف الدین ابن قدامہ ہوں یا اپنے زمانے کے معروف مدرس اور واعظ ’ابن نجا‘ دونوں حضرات سیّد عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ کے خصوصی شاگرد تھے اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے انھیں اپنا خصوصی مشیر بنایا۔ ان دونوں عظیم شخصیات کی طرح   انھوں نے اپنے دور کے تمام دیگر علماے ربانی کی خدمات حاصل کیں۔ قوم کو معصیتوں بھری زندگی سے نکال باہر لانے اور اس میں روح جہاد پھونکنے کا اصل فریضہ انھی مبارک ہستیوں کے ذریعے تکمیل تک پہنچا۔ سلطان صلاح الدین اس حقیقت کا برملا اظہار کیا کرتے تھے کہ ’’میں نے بیت المقدس کو اپنی تلوار سے نہیں ان علماے کرام کے علم و فضل اور رہنمائی کے ذریعے آزاد کروایا ہے‘‘۔(ماہ نامہ عالمی ترجمان القرآن 2015)
آج فلسطین کے حالات دیکھ کر لوگ ہزاروں باتیں کر رہے ہیں… پر اب بھی نگاہ کسی روحانی مربی و مرشد کو تک رہی ہیں …. جس کی تربیت میں رہ کر مسلم نوجوان روح جہاد کی حقیقتوں سے آشنا ہو سکیں …. قلب ونظر و ذہن کی صفائی، ذکر الہی کی ضربیں، ہی میدان جہاد کی ضرب کاری بن کر یہود وھنود کو مٹا کر پرچم اسلام کو بلند کریں گی … . ان شاء اللہ …. پر وہ مرشد ملے کہاں…. ملے تو راقم کو بھی قارئین ضرور بتائیں ……. یا پھر اب امام مہدی علیہ الرحمہ ہی ہوں گے.. واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

razamarkazi@gmail.com

پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو دادا نانا کی میراث سے حصہ کب ملے گا؟

پوتے، پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو دادا نانا کی میراث سے کب حصہ ملے گا؟
سوال :کسی شخص کی حیات میں بیٹے یا بیٹی کا انتقال ہوگیا، بیٹے اور بیٹی کی اَولاد حیات ہیں، تو دادا اور نانا کی میراث میں پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں حق دار ہوںگے یا نہیں؟

سائل : محمد ذہیب نوری ممبی

الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

اگر کسی شخص کی زندگی میں اُس کے کسی بیٹے کا انتقال ہوگیا جس کی اَولاد موجود ہے، تو یہ دیکھا جائے گا کہ اس شخص کی وفات کے وقت اُس کا کوئی دوسرا صلبی بیٹا حیات ہے یا نہیں؟ اگر کوئی صلبی بیٹا زندہ موجود ہو تو مرنے والے کی بیٹی کی سب اولادیں دادا کی وراثت سے محروم ہوں گی… لیکن اگر مذکورہ شخص کی وفات کے وقت اُس کا کوئی بھی صلبی بیٹا حیات نہ ہو تو اُس کے پوتے پوتیوں کو حسبِ حصصِ شرعیہ حق ملے گا۔ اِسی طرح اگر مذکورہ شخص کی زندگی میں اُس کی کسی بیٹی کا انتقال ہوگیا اور بیٹی کی اَولادیں موجود ہیں تو یہ اَولادیں اپنے نانا کی وراثت میں اسی صورت میں حق دار بن سکتی ہیں جب کہ نانا کے انتقال کے وقت نہ تو اُن کا کوئی عصبہ موجود ہو اور نہ اصحابُ الفروض میں سے کوئی زندہ ہو… لہٰذا اگر مذکورہ شخص کی وفات کے وقت اُس کی سگی اولاد میں سے کوئی موجود ہے یا پوتے پوتیاں موجود ہیں یا بھائی بھتیجے موجود ہیں یا چچا موجود ہیں یا چچا زاد بھائی موجود ہیں، تو اُس کے ترکہ میں اُس مرحوم بیٹی کی اولاد یعنی نواسہ نواسیوں کا کوئی حق نہ ہوگا۔
الأقرب فالأقرب یرجحون بقرب الدرجۃ أعني أولاہم بالمیراث جزء المیت أي البنون ثم بنوہم۔ (السراجي في المیراث ص: ۲۲) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم

محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں

شرعی عدالت واٹس ایپ گروپ

ایڈمن: اسلامک معاشرہ یوٹیوب چینل

👍Plzzzz 🔀 subscribe

islamic muashra

🛑 youtube channel 🛑

شرعی عدالت یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں..

تبرکات کا دھندا عروج پر…… مارکیٹ میں نقلی تبرکات کی بھر مار

👈 تبرکات کا دھندا 😭 مصنوعی تبرکات کا بازار عروج پر ……
😭محمد رضا مرکزی
خادم التدریس والافتاء
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں
8446974711
آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی اشیاء سے فیوض وبرکات حاصل کرنا اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور علمائے کرام وصلحا و صوفیاء کا طریقہ رہا ہے ….. لیکن اسی کو بزنس اور کمائی کا دھندا بنا لینا…. بھولے بھالے مسلمانوں کو گمراہ کرنا.. یہ کون سے دین کی تعلیم ہے ….. تبرکات کے تعلق سے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے ….
کسی بھی چیز کو تبرک بنانے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و سلم کی طرف منسوب کرنے سے پہلے ہزار بار اس حدیث کو پڑھ لیں… الامان والحفیظ
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری طرف جھوٹی بات منسوب نہ کرو۔ یقینا جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: مجھ پر جھوٹ باندھنا ایسا نہیں جیسا کسی اور پر جھوٹ باندھنا۔ جو میرے متعلق جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

عبدالمصطفی صاحب نے اچھا ہی نہیں بہت اچھا اور سچا لکھا ہے….

کوئی بھی کہیں سے بھی کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بال، نعلین اور کپڑا وغیرہ فلاں بزرگ کا ہے اور بھولے بھالے لوگ اس پر عقیدت اور مال کا چڑھاوا چڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم تبرکات کی عظمت کا انکار نہیں کرتے لیکن فرضی تبرکات کا جس طرح بازار گرم ہے، اس سے اتفاق بھی نہیں کر سکتے۔

ہماری سنی عوام اتنی بھولی ہے کہ ایک سلائی مشین کی تصویر جس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی مشین ہے، اسے بھی عقیدت کے ساتھ عام کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ تک نہیں سوچتے کہ اس مشین کا ایجاد کب ہوا۔

ہمارے ملک ہندستان میں درجنوں نعلین ایسے مل جائیں گے جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہیں۔ اب سوچنے والی بات ہے کہ اتنے نعلین ہندستان میں کہاں سے آ گئے؟ کیا یہ تبرکات کے نام پر دھندا نہیں ہے؟

کہیں سے سننے میں آیا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے بالوں کی زیارت کروائی جا رہی ہے!
علامہ اسید الحق قادری بدایونی نے لکھا تھا کہ کسی شہر کے بارے میں انھیں معلوم ہوا کہ جہاں اس تختی کی زیارت کروائی جا رہی ہے جس پر حسنین کریمین کا تحریری مقابلہ ہوا تھا جبکہ اس روایت کی ہی اصل نہیں ملتی۔ پھر آپ لکھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہیں اس جنتی سیب کی بھی زیارت کروائی جانے لگے جس سے اس تختی کا فیصلہ ہوا تھا تو دنیا میں جنتی پھل دیکھنے کا شرف حاصل ہو جائے گا۔ (ملخصاً: نقد و نظر)

ماضی قریب میں جن بزرگوں کا انتقال ہوا اور جو ابھی با حیات ہیں ان کے بھی تبرکات کے ساتھ عجیب و غریب معاملات ہو رہے ہیں۔ کوئی اپنے پیر کے بالوں کو موئے مبارک بول کر تقسیم کر رہا ہے اور پیر صاحب خاموش ہیں! کوئی کرتے اور عمامے کے کپڑوں کے ٹکڑے کو فروخت کر رہا ہے اور لوگ بڑی بڑی رقم دے کر اسے خرید رہے ہیں! ان سب کی حدوں کو پہچاننا ضروری ہے، اس طرح عقیدت میں حد سے بڑھنا درست نہیں ہے۔

تبرکات کی تعظیم ضروری ہے لیکن ہم آپ کی توجہ اس کے نام پر چل رہے دھندے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ اصل اور فرضی میں فرق کا شعور پیدا کریں اور اپنی عقیدت کا غلط استعمال ہونے سے بچائیں۔

کئی سال پہلے “تبرکات کا مذموم کاروبار” صدیق محترم مولانا افتخار الحسن رضوی صاحب نے ایک بہترین تجزیہ پیش کیا تھا… ملاحظہ کریں….

حالیہ دنوں میں ہند و پاک کے مسلمانوں میں تبرکات کا کلچر بہت عام ہوا ہے۔ متعدد خانقاہیں، علماء اور بعض پیر حضرات اس بزنس میں بڑھ چڑھ کر شریک ہیں۔ مثلا نبی کریم ﷺ کے “بال مبارک”، نعلین شریفین، عصا مبارک، قبرِ رسول ﷺ کی خاک، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تلوار، امام حسین رضی اللہ عنہ کی دستار و عمامہ ، سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ کی پگڑی وغیرہ وغیرہ۔ یہ سلسلہ طویل ہے اور ایسے عجیب و غریب تبرکات بتائے جاتے ہیں کہ بندہ حیرت کی وادیوں میں گم ہو جاتا ہے۔
یہ حقیقت اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ کل کائنات میں فقط اسطنبول (ترکی) میں موجود بعض تبرکات ایسے ہیں جن کی سند باقاعدہ محفوظ ہے، اس کے علاوہ دنیا بھر میں موجود تبرکات مشکوک ہیں۔ عرب کے خزرجی قبائل کے پاس کچھ تبرکات ہیں، انہی دو مقامات سے تبرکات بعض مواقع پر دنیا کے دیگر ممالک میں لے جائے جاتے ہیں اور زیارت کے بعد واپس محفوظ کر لیے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ سنگین اور حساس ہے کہ کسی ایسی چیز کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر دیا جائے جس کا تعلق حقیقت میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ نہیں ہے۔ امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی صحیح میں ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
”میرے اوپر جھوٹ بولنا کسی عام شخص پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے، جو شخص جان بوجھ کر میری جانب جھوٹی بات منسوب کرے تو اس کو چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے“۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول کریم ﷺ کے موئے مبارک صحابہ کرام علیہم الرضوان نے جمع فرمائے اور وہ بعد میں آنے والے لوگوں تک پہنچے، لیکن جس کثرت سے یہ بال ہند و پاک میں اب نظر آنے لگے ہیں یہ خلاف حقیقت ہے۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ یہ تبرکات صرف ہند و پاک یا دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے ہندوستانیوں اور پاکستانیوں ہی کے پاس ہوتے ہیں۔ اہل عرب اور افریقی مسلمان ان سے واقف نہیں یعنی جہالت کے اکثر مراکز ہند و پاک ہی میں واقع ہیں۔
نبی کریم ﷺ کی قبر شریف تک دنیا کے کسی حاکم بشمول سعودی حکام کی رسائی نہیں، تو پھر قبر رسول ﷺ کی مبارک خاک کا لوگوں تک پہنچنا کیسے ممکن ہے؟ روضہ شریفہ کے اندر خاک کا جمع ہونا ہی مشکل ہے، اس قدر صفائی کا انتظام، جالیاں، کنکریٹ کی دیواریں، اعلٰی دھاتی مواد کی حفاظی تہیں موجود ہوں تو وہاں تک خاک کیسے پہنچتی ہے؟
سیدنا علی کی ایک تلوار، یہ اتنے سارے لوگوں کے پاس کیسے پہنچی؟ سیدنا امام حسین پاک کا عمامہ شریف ؟؟؟ سر مبارک کے مقام تدفین پر اختلاف ہے اور یزیدی ملعونین نے جسمِ مبارک تو زخموں سے چور چور کر دیا تھا تو پگڑی کیسے بچا کر محفوظ کر لی گئی؟ اور اگر بچ بھی گئی تو اس قدر پگڑیاں تھیں کہ وہ دنیا کے مختلف مقامات پر پہنچا دی گئیں؟
تبرکات کا یہ بزنس کرنے والا طبقہ زمزم اور آب شفاء کے نام پر بھی عقیدتیں بٹورتا ہے۔ مثلا لوگوں کو بیوقوف بناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک سو اکیس پانیوں کا مجموعہ ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ کا لعاب مبارک شامل ہے۔ استغفر اللہ العظیم۔ سب سے بڑی شفاء زمزم کے پانی میں ہے، اس کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی آب شفاء نہیں ہے۔ مدینہ سے بدر کے راستے پر واقع “بئر روحہ” معروف کنواں ہے، لیکن یہ بالکل بھی ثابت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مصطفٰی جانِ رحمت ﷺ نے اس کنویں میں اپنا مبارک لعاب شامل فرمایا ہو۔ لہٰذا یہ من گھڑت روایت ہے۔
اسی طرح قبر رسول ﷺ پر موجود چادر اور غلافِ کعبہ کے تبرک بھی بیچے جاتے ہیں بلکہ غلافِ کعبہ کے دو دو دھاگے بیچے جاتے ہیں۔ یاد رکھیں اگر آپ کے اعمال و أفعال اور عقائد صالح و سلامت نہیں تو آپ زم زم کے کنویں میں بھی ڈبکیاں لگا لیں، اور کعبے کے اندر ہی داخل ہو کر رہنا شروع کر دیں، کچھ حاصل نہیں۔ اسلام میں بخشش اور حصول جنت کے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔
ہند و پاک کے لوگ مذہبی عقیدت میں اندھے ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ مولوی اور پیر کی داڑھی اور پگڑی دیکھ کر دھوکے میں آ جاتے ہیں اور فورا عقیدت میں اندھے ہو جاتے ہیں۔ ہر وہ چیز جس کی نسبت رسول اللہ ﷺ سے کی جائے، اس کی مکمل تفتیش کریں، جب تک اس کی اصل سند اور صحت ثابت نہ ہو جائے ، ہرگز یقین نہ کریں۔ یہ خود ساختہ میڈ ان انڈیا اینڈ پاکستان تبرکات ہمیں نہ جنت میں لے جا سکتے ہیں، نہ ہمیں جہنم سے بچا سکتے ہیں، اپنے اعمال اچھے کریں اور قرآن و سنت کی اتباع کرتے ہوئے اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کا قرب حاصل کریں۔ اپنی عقیدت کسی کے ہاتھ مت بیچیں، ورنہ اسی اندھی عقیدت ہی کی وجہ سے ہند و پاک میں کئی مزارات میں گدھے اور کتے مدفون ہیں، اور بعض مزارات میں ہند و اور بھنگی چرسی مدفون ہیں۔
کتبہ: افتخار الحسن رضوی
۲ دسمبر ۲۰۲۰

قدم رسول تو ہند و پاک میں ہزاروں مقامات پر ہیں.. پتہ نہیں اتنے زیادہ قدم رسول پاک اور موئے مبارک ہندوپاک والوں کو کہاں سے مل گئے؟
حالانکہ ضرورت تو رسول کے نقش قدم پر چلنے کی تھی لیکن اسے چھوڑ کر ہم صرف زیارت کرنے اور کرانے کے لئے قدم رسول کی تلاش میں لگ گئے….

مارکیٹ میں تبرکات کیسے کیسے آ گئے ہیں ایک جھلک…
سیدہ کائنات بی بی فاطمہ کا دوپٹہ.. اللہ خیر فرمائے جس کے آنچل کو چاند وسورج نے نہ دیکھا آج یہ جھوٹے مکار لوگ اس کی زیارت کرا رہے ہیں اللہ اکبر … امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے کہا
جس کا آنچل نہ دیکھا ماہ ومہر نے
اس ردائے نزہت پہ لاکھوں سلام

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ڈوپٹہ شریف بھی آگیا…
سلائی مشین
مزاراتِ کے پتھر
غسل کا پانی
چادر کا ٹکڑا
پیر، بزرگ کے کپڑے، عمامے، عصا وغیرہ
اصحاب رسول کے بال، زلف
جھاڑو فلاں آستانے کا
حسنین کریمین کے بال
نبی کی تلوار وغیرہ وغیرہ

اللہ جانے انہیں یہ تبرکات کہاں کہاں سے مل جاتے ہیں 👆👆

📱👈سننے کے لیے
👍📱Watch “تبرکات کا کاروبار ||Tabarrukat ka karobar || نقلی اور اصلی تبرکات میں فرق || MuftiMarkazi” on YouTube
https://youtu.be/UTljFnj8hqs

یومِ ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یوم تجدیدِ وفا

یوم ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یوم تجدیدِ وفا
محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتاء
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں
8446974711
ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم احسان عظیم ہے من جانب اللہ امت محمدیہ پر باالخصوص اور تمام انسانوں پر بالعموم ….. اللہ نے خود فرمایا…
بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے ۔ وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا۔ آیت میں مِنَّت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو عظیم نعمت کو کہتے ہیں۔ مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عظیم احسان فرمایا کہ انہیں اپنا سب سے عظیم رسول عطا فرمایا۔ کیسا عظیم رسول عطا فرمایا کہ اپنی ولادتِ مبارکہ سے لے کر وصالِ مبارک تک اور اس کے بعد کے تمام زمانہ میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہار ہے ہیں بلکہ ہمارا تو وجود بھی حضور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ سے ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو کائنات اور اس میں بسنے والے بھی وجود میں نہ آتے ۔ پیدائشِ مبارکہ کے وقت ہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہم امتیوں کو یاد فرمایا،شبِ معراج بھی ربُّ العالَمین کی بارگاہ میں یادفرمایا، وصال شریف کے بعد قبرِ انور میں اتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا تو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لب ہائے مبارکہ پر امت کی نجات و بخشش کی دعائیں تھیں۔ آرام دہ راتو ں میں جب سارا جہاں محو اِستراحت ہوتا وہ پیارے آقا حبیب کبریا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنا بستر مبارک چھوڑ کر اللہ کی بارگاہ میں ہم گناہگاروں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے ہیں۔ عمومی اور خصوصی دعائیں ہمارے حق میں فرماتے رہتے۔قیامت کے دن سخت گرمی کے عالم میں شدید پیاس کے وقت ربِّ قہار کی بارگاہ میں ہمارے لئے سر سجدہ میں رکھیں گے اور امت کی بخشش کی درخواست کریں گے ۔ کہیں امتیوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری کریں گے ، کہیں پل صراط سے سلامتی سے گزاریں گے ، کہیں حوضِ کوثر سے سیراب کریں گے ، کبھی جہنم میں گرے ہوئے امتیوں کو نکال رہے ہوں گے ،کسی کے درجات بلند فرما رہے ہوں گے ، خود روئیں گے ہمیں ہنسائیں گے ، خود غمگین ہوں گے ہمیں خوشیاں عطا فرمائیں گے ، اپنے نورانی آنسوؤں سے امت کے گناہ دھوئیں گے اوردنیا میں ہمیں قرآن دیا، ایمان دیا ، خدا کا عرفان دیا اور ہزار ہا وہ چیزیں جن کے ہم قابل نہ تھے اپنے سایہ رحمت کے صدقے ہمیں عطا فرمائیں۔ الغرض حضور سید دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احسانات اس قدر کثیر در کثیر ہیں کہ انہیں شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے.. (تفسیر صراط الجنان سورہ آل عمران 164)
جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوّت و رسالت کا اعلان نہیں کیا تھا، اس وقت آپﷺ   مکّہ میں ایک عقل مند ودانشور، امین وصادق اور اچھے انسان سے جانے جاتے تھے۔ جب آپﷺ  نے اپنی نبوت کا اعلان کیا.. تو لوگوں نے آپﷺ  کوجادوگر اور کاہن وساحر  جیسے معیوب لقب سے مشہور کرنے کی کوشش کی… تاکہ لوگ آپﷺ  کے قریب نہ آئیں اور آپﷺ  کی باتیں نہ سنیں.. مگر اللہ نے جن کے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، ان حضرات کو اس کا کوئی اثر نہیں ہوا.. بلکہ تکلیف ومشقت برداشت کرکے، آپﷺ  کے پاس تشریف لاتے تھے اور جلوۂ انوار ربّانی سے اپنے قلوب کو منور کرکے جاتے تھے۔
یقیناً جہالت وگمراہی میں غرقاب قوم کو ھادی ورہبر ورہنما بنانے والے نبی کی تعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ ونمونہ عمل ہر دور میں رہے گی ہی …..لیکن افسوس صد افسوس ہم نے ان نبوی تعلیمات کو فراموش کردیا ….. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن آؤ ہم تجدید وفا بارگاہِ رسالت میں کرتے ہیں کہ ہم پھر انھیں تعلیمات پر عمل کریں …. جو دنیا و آخرت کی نجات کا ضامن ہیں ….. آؤ عہد کریں..
جھوٹ نہیں بولیں گے…
حقوقِ والدین کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرے گی…
یتیموں اور بیواؤں کی امداد واعانت استطاعت کے مطابق کرتے رہیں گے….
پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی میں پیش پیش رہیں گے ….
کمزوروں کو نہیں ستائیں گے….
زنا، شراب، چوری، غیبت، عیب جوئی، سے بچتے رہیں گے…
حقوق اللہ و حقوق الرسول و حقوق الدین و حقوق العباد کی ادائیگی سب پر مقدم ہو گی…
نماز، روزہ، تلاوت قرآن کی پابندی کرتے رہے گے….
آؤ مزید پختہ عہد کریں… کہ اب تک ہم نے اپنی زندگی اللہ ورسول کی نافرمانیوں میں گزار دی…. کچھ نہیں کیا…. آج اے اللہ کے نبی آپ کی ولادت با سعادت کے دن ہم شرمندہ ہیں…… آپ ہم پر نظر کرم فرمائیے… ہم کمزور ہیں …. ہم گناہ گار ہیں… خطاکارہیں…. سیاہ کار ہیں…… آپ کے توسل سے دعائیں قبول ہوتی ہیں …. آپ کا وسیلہ رب کی بارگاہ میں مقبول ہے …. ہم نے اپنی جانوں پر یقینا ظلم کیا ہے… کہاں جائیں… کدھر جائیں… کس کے پاس جائیں… دل کی کس کو سنائیں… کہاں روئیں… تو قرآن نے سہارا دیا…
اگر وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(سورہ نساء 176)
آیت کے اس حصے میں اگرچہ ایک خاص واقعے کے اعتبار سے کلام فرمایا گیا.. البتہ اس میں موجود حکم عام ہے اورقیامت تک آنے والے مسلمانوں کو سَرورِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر شفاعت طلب کرنے کا طریقہ بتا یا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ کی بارگاہ میں آجائیں کہ یہ بارگاہ، رب کریم کی بارگاہ ہے، یہاں کی رضا، رب کی رضا ہے اور یہاں کی حاضری، رب ِ کریم کی بارگاہ کی حاضری ہے، یہاں آئیں اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے کے ساتھ حبیب ِ ربُّ العٰلَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھی شفاعت کیلئے عرض کریں اور نبی مُکَرَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کیلئے سفارش فرما دیں تو ان لوگوں پر اللہ کی رحمت و مغفرت کی بارشیں برسنا شروع ہوجائیں گی اور اس پاک بارگاہ میں آکر یہ خود بھی گناہوں سے پاک ہوجائیں گے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بندوں کو حکم ہے کہ ان (یعنی نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔ اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے، اس کا علم ،اس کا سَمع (یعنی سننا)، اس کا شُہود (یعنی دیکھنا) سب جگہ ایک سا ہے، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو…. مزید اشعار کی شکل میں فرماتے ہیں…..
مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُوْكَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا
razamarkazi@gmail.com

عید میلاد اچھل کود، ناچ گانا، ڈی جے بجانے کا نام نہیں!!!! ایں بارگاہ ادبیست…. ماہ ولادت رسول کا مسلمان

ولادت رسول کا مہینہ اور مسلمان
محمد رضا مرکزی
خادم التدریس والافتاء
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں
8446974711
ماہ ربیع الاول ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا مبارک ومسعود مہینہ ہے….. ایام فترۃ (عیسی علیہ السلام سے لے کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت تک کا نبی سے خالی زمانہ ) کے طویل عرصے کے بعد نور علم پھیلا…. ایام جہالت کا خاتمہ ہوا… اور ایام اسلام کے حسین دور کا آغاز ولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا….
آمد رسول سے پہلے دنیا کی حالت زار کیا تھی…… بیان سے باہر… ظلم، جہالت، شراب، زنا، اندھیرا ،بے انصافی، بے ایمانی، بے اطمینانی، ہزاروں معبودان باطل کے سامنے جھکی پیشانی، غلاموں، لڑکیوں کی خرید وفروخت کی کثرت، بچیوں کو زندہ دفن کرنا، شباب وکباب، رقص وسرور، خاندانی تکبر، نسلی تعصب، عصبیت، تفاخر یہ عرب وعجم کا ماحول تھا….
ایسے ماحول میں بس انسانوں کو انتظار تھا…. انسانیت کی طرف لانے والے کا… کسی نجات دھندہ کا…. بے راہ روی کے شکار لوگوں کو راہ حق کا مسافر بنانے والے راہی ورہبر ورہنما کا..
رسول ِ اکرم ﷺ جس وقت دنیا میں  مبعوث ہوئے اور نبوت کا اعلان کیا.. وہ دور دنیا کا نہایت عجیب اور تاریک ترین دور تھا،  ظلم وستم،  ناانصافی و حقوق تلفی،  جبر وتشدد،خدافراموشی و توحید بیزاری عام تھی،  اخلاق وشرافت کا بحران تھا،  اور انسان ایک دوسرے کے دشمن بن کر زندگی گزارہے تھے،  ہمدردی اور محبت کے جذبات،  اخوت و مودت کے احساسات ختم ہوچکے تھے،  معمولی باتوں  پر لڑائی جھگڑااور سالہاسال تک جنگ وجدال کا سلسلہ چلتا تھا،  ایسے دور میں  آپ ﷺ تشریف لائے،  اور پھر قرآنی تعلیمات ونبوی ہدایات کے ذریعہ دنیا کو بدلا، عرب وعجم میں  انقلاب برپاکیا،  عدل وانصاف کو پروان چڑھایا، حقوق کی ادائیگی کے جذبوں  کو ابھارا، احترام ِ انسانیت کی تعلیم دی،  قتل وغارت گری سے انسانوں  کو روکا،  عورتوں  کومقام ومرتبہ عطاکیا،  غلاموں  کو عزت سے نوازا، یتیموں  پر دست ِ شفقت رکھا، ایثاروقربانی،  خلوص ووفاداری کے مزاج کو پیدا کیا، احسانات ِ خداوندی سے آگاہ کیا، مقصد ِ حیات سے باخبر کیا، رب سے ٹوٹے ہوئے رشتوں  کو جوڑا، جبین ِ عبدیت کو خدا کے سامنے جھکانے کا سبق پڑھایااور توحید کی تعلیمات سے دنیا کو ایک نئی صبح عطا کی،  تاریکیوں  کے دور کا خاتمہ فرمایا، اسلام کی ضیاپاش کرنوں  سے کائنات ِ ارضی کو روشن ومنور کردیا۔  نبی اکرم ﷺ کا یقینا انسانیت پر سب سے بڑا احسان یہ بھی ہے کہ آپ نے بھولی بھٹکی انسانیت کو پھر سے خدا کے در پر پہنچایا اور احساسِ بندگی کوتازہ فرمایا۔ آپ ﷺ نے یہ حیرت انگیز کارنامہ صرف 23 سالہ مختصر مدت میں  انجام دیا۔  23 سالہ دور میں  آپ نے ساری انسانیت کی فلاح وصلاح اور کامیابی کا ایک ایسا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیاکہ ا س کی روشنی میں  ہر دور میں انقلاب برپا کیاجاسکتا ہے اور اصلاح وتربیت کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ جن عظیم مقاصد دے کر دنیا میں  بھیجا،  آپﷺ نے ان مقاصد کو بروئے کارلاکر اپنی حیاتِ مبارکہ میں  جدوجہد فرمائی وہ ہمارے لئے ایک رہنمایانہ اصول ہیں…. ہر بندہ مومن ان اصولوں پر عمل کر کہ دنیا و آخرت کی سرخروئی حاصل کر سکتا ہے….. اسوہ رسول اور اخلاق رسول ہمارے لیے نمونہ عمل ہیں…..
لیکن جیسے جیسے انسان جدیدیت کی طرف جا رہا ہے…. اسلامی تہذیب وتمدن پر بھی جدیدیت کا بھوت چڑھتا جا رہا ہے… عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی لے لیں کہ پہلے سادگی کے ساتھ ہر گھر میں محفل میلاد منعقد ہوتی تھی… نعت مبارکہ کے حسین گلدستے بارگاہ رسالت میں پیش کئے جاتے تھے… اب ڈی جے کے ذریعے نعت وفلمی گانے اور ڈھول جیسی آواز میں کوئی فرق نا رہا..کہاں نعت پاک کا تقدس وادب…اور اب کہاں چیختے چلاتے نوٹ خور بے ہودہ گویے اورتلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے میلاد صرف سجاوٹ ،اچھل کود، ڈی جے بجانے، دوڑ بھاگ کرنے کو ہی سمجھ لیا ہے جو ہماری سب سے بڑی غلطی ہے…. جلوس محمدی مسلمانوں کے ڈسپلن کو غیروں تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے… ادب و احترام، اسلامی شان وشوکت ،ذکر ودرودوسلام کے نغمات، باوضو، نظر جھکا کر بارگاہِ رسول میں مؤدب ہو جانا ہی ایک مسلمان کا عمل ہو…
پر افسوس سب بدل گیا ….. صرف اور صرف سجاوٹ ہہ کی طرف ہمارا مکمل رجحان ہے اور تیزی سے بڑھتا ہی جا رہا ہے… سجاوٹ میں اتنے مصروف کہ نماز تک قضا ہو جارہی ہیں…. دوکان والے سو والی لائٹ دو سو میں بیچ کر آمد رسول کو ذریعہ لوٹ کھسوٹ بنا لیے ہیں… دلوں کو سجاؤ….. چہرے پر سنت کو سجاؤ…. لباس وعادات واطوار مدینے والے آقا کی طرح ہو اپنے آپ کو دین کے سانچے میں ڈھالو……. تب آمد رسول کے مقصد کی طرف ہمارا جانا ہو گا ورنہ سمجھو لو…… میلادی تو بن گئے نمازی اور حقیقی مومن نہ بن سکے…

سود حرام تجارت جائز… سودی لین دین کی نحوست….. سود کی چند صورتیں جن سے ہم واقف نہیں اور کاروبار کرنے لگتے ہیں…. رہن یعنی گروی والی چیزوں کے مسائل

سود کی چند صورتیں جن سے ہم واقف نہیں…..
محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتاء
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں
8446974711
اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود کو…
سود زنا سے بھی بدتر ہے سود اللہ سے اعلانِ جنگ ہے،سود حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، جس طرح سود لینا حرام ہے دینا بھی حرام ہے۔
سود کی آسان تعریف…. عقدِ معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے…
دنیا دار انسان سود کو نفع بخش اور زکاة کو مال میں کمی کرنے والا سمجھتا ہے، جبکہ حقیقت بالکل برعکس ہے، ایسے خام خیال افراد کی ہدایت کےلئے ،سود کے مقابلے میں ﷲ تعالیٰ نے زکاة کا نظام پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مال کو بڑھانا ہو تو اسے رب کی بارگاہ میں زکاةاور صدقات کی شکل میں پیش کرو..
سود کو عربی زبان میں ” ربا”کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔ مثلاً کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100روپئے قرض دئے ، تو اس سے یہ شرط کرلی کہ وہ 100 روپے کے 120روپے لے گا ، مہلت کے عوض یہ جو 20روپے زیادہ لیے گئے ہیں ، یہ سود ہے “۔

سیدنا جابر کہتے ہیں : رسول ﷲ صلى الله عليه وسلم نے سود کھانے والے ، اور اسے کھلانے والے ، اور اس (دستاویز)کے لکھنے والے ،اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت بھیجی ہے اور پھر فرمایا کہ یہ تمام کے تمام گناہ میں برابر کے شریک ہیں ۔”( مسلم ۸۹۵۱)
سیدنا عبدﷲ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول ﷲ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:” جس گاوں میں زنا اور سود رواج پاگیا ، تو وہاں کے باشندوں نے اپنے اوپر ﷲ کے عذاب کو حلال کرلیا ۔” ( صحیح ،المستدرک للحاکم)
یاد رکھیں… سود بڑھتا نہیں گھٹتا ہے…
سود کو بڑھتا اور پروان چڑھتا سمجھنا ، سود کھانے والوں کی خام خیالی ہے ، جب کہ ﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے اس کے کم ہونے اور تباہ وبرباد ہونے کی پیشین گوئی فرمائی ہے ۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
ترجمہ :ﷲ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے ، اور اللہ کسی ناشکرے (سود خور) اور گناہ گار کو دوست نہیں رکھتا بے شک جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کئے اور نماز قائم کی، اور زکاة ادا کی ،ان کا اجر ان کے رب کے پاس ثابت ہے ، اور ان پر نہ خوف طاری ہوگا ، اور نہ انہیں کوئی غم لاحق ہوگا.
سود کی بعض قسمیں
سود ایک چیز کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ دے کر فروخت کرناہے ۔ فقہاءنے اس کا قاعدہ کلیہ یہ بتایا ہے کہ وہ تمام اجناس، جن میں ” ناپ ، وزن اور خوراک ” تینوں صفات میں سے کوئی دو صفتیں پائی جائیں ، ان کا آپس میں لین دین یا خرید وفروخت کسی ایک کو زیادہ کرکے جائز نہیں۔ جن چیزوں میں یہ تینوں صفات معدوم ہوں ، یا ان کی جنس مختلف ہو ، تو پھر کسی کی زیادتی سود نہیں ہوگی ، جیسا کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” سونا سونے کے بدلے ،چاندی چاندی کے بدلے ، گیہوں گیہوں کے بدلے ، جو جو کے بدلے اور کھجور کھجور کے بدلے ، برابر برابر بیچنا جائز ہے ، لیکن ان میں سے کسی ایک کو گھٹا بڑھا کر بیچنا یا دینا سود ہے “۔ ( مسلم ، احمد )
اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز جتنی دی جائے اتنی ہی واپس لینی چاہئے ،جتنا سونا یا چاندی دی ہو ، یا جتنا روپیہ دیا ہو، اتنا ہی واپس لینا چاہئے ،اصل مال پر کچھ زائد رقم کا لینا ، چاہے وہ رقم کم ہو یا زیادہ ، سود ہے ۔
موجودہ زمانے میں تجارنے نئے نئے طرق نکال لئے ہیں… اور اپنے ناقص علم کی رو سے اسے جائز طریقہ تجارت سمجھتے ہیں…. لیکن اگر شرعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ سراسر سود ہے.. حرام ہے…. سب سے زیادہ ابھی گروی (رہن) کے معاملات سامنے آ رہے ہیں… جن میں اکثریت سود کی طرف چلی جارہی ہے…. کچھ مثالیں دیکھیں…..
 زمین رہن (گروی) رکھنا مالی عوض کے بدلے اس شرط کے ساتھ کہ جب تک مقروض روپے واپس نہیں کرتا تب تک کے لیے زمین کاشت کرکے قرض دینے والا فائدہ اٹھاتا رہے گا تو یہ ناجائز ہے ۔ اور یہ انتفاع بھی سود ہے ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے
مرتہن کو مرہون سے نفع اٹھانا حرام اورنرا سُود ہے..
قرض دینے والے شخص کا مقروض آدمی کی زمین سے فائدہ اٹھاناسود میں شامل ہے اور حرام ہے، اس لیے اس طرح کامعاہدہ کرنا جائز نہیں ہے، نیز اس کی رو سے قرض دینے والے کے لیے مقروض کی زمین سے اس کی مرضی کے باجود فائدہ اٹھانا حلال نہیں ۔
موجودہ دور میں بعض علاقوں میں زمینوں کو طویل المیعاد قرضوں کے بدلے گروی رکھوایا جاتاہے اور ان زمینوں پر کاشت کاری کرکے نفع اٹھایا جاتاہے، اور قرض کی ادائیگی کی صورت میں اصل مالک کو زمین واپس کردی جاتی ہے، شرعاً یہ جائز نہیں ہے۔
البتہ قرض کے بدلہ میں محض رہن کے طور پر کسی کی زمین اپنے پاس رکھنا جائز ہے.. تاکہ اگر قرض دار قرض نہ ادا کرسکے تو اس قیمتی چیز سے قرض کی رقم کی ادائیگی کا انتظام کیا جاسکے۔لیکن رہن میں رکھی جانے والی چیز کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، اور رہن میں رکھے جانے کے بعد بھی رہن (گروی) رکھی ہوئی چیز اس کے اصل مالک کی ہی ملک رہتی ہے، البتہ قبضہ مرتہن (جس کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے) کا ہوتا ہے۔ نیز اس میں پیدا ہونے والی زیادتی بھی مالک کی ملک قرار پاتی ہے۔ اور مرتہن (جس کے پاس چیز گروی رکھی ہو) کے لیے شرعاً اس کے استعمال اور اس سے نفع کمانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
شہر میں گروی والے مکانات کے لین دین کے معاملات کثرت سے ہو رہے ہیں…. اس کے تعلق سے بھی حکم شرع سمجھیں…
گروی والا مکان کرایہ پر دینا……
حدیث پاک ہے
کل قرضٍ جَرَّ نَفعَةً فهو ربا.
ہر وہ قرض جو ساتھ نفع دے وہ سود ہے۔
گروی کا مطلب بھی یہ ہے کہ ایک شخص کو رقم کی ضرورت ہے تو وہ اپنی چیز کو اعتماد کے لیے دوسرے کے پاس رکھتا ہے اور وہ شخص کچھ مدت کے لیے اسے رقم دیتا ہے۔ جب یہ رقم واپس کرے گا وہ شخص متعلقہ چیز واپس دے گا۔ مثلاً مکان، سونا اور جائیداد وغیرہ۔
اب اس مکان سے فائدہ حاصل کرنا یہ سود ہے اس لیے کہ یہ قرض کے بدلے بطور امانت آپکے پاس ہے۔
البتہ اگر آپ مالک مکان کو کچھ ماہانہ کرایہ دیتے ہو چاہے وہ عرف سے کم بھی ہو تو اس وقت جائز ہے لیکن مالک مکان کو راضی کرے تو یہ بہتر صورت ہے۔ مکان کی حفاظت آپ پر لازم ہے اس لیے کہ یہ آپ کے پاس امانت ہے۔
اور وضاحت پیش ہے…
قرض دینے والا اپنے قرض کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے مقروض سے بطور رھن مکان وغیرہ لے سکتا ہے لیکن اس سے بلا عوضِ معروف نفع حاصل کرنا سود اور ناجائز ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخص کو قرض دے کر مکان گروی کے طور پر رکھ لیا تو اس گھر میں رہنا یا کسی اور استعمال میں لانا اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک بازار کے ریٹ کے مطابق اس کا پورا کرایہ ادا نہ کیا جائے۔اور اس کرائے کے معاملے کو رہن کے ساتھ مشروط نہ کیا جائے بلکہ یہ معاملہ الگ سے کیا جائے۔
لا الانتفاع بہ مطلقًا الاباذن …….. وقیل ان شرطہ کان ربًا والا لا وفی الشامیہ رأیت فی الجواھر الفتاویٰ واذا کان مشروطًا صار قرضًا فیہ منفعۃً وھو ربا والا فلابأس …… اقول مافی الجواھر یصلح للتوفیق وھو وجیہ ……. قلت والغالب من احوال الناس انھم یریدون عندالدفع الانتفاع ولو لاہ لما اعطاہ الدراھم وھذا بمنزلۃ الشرط لان لمعروف کا لمشروط وھو مما یعین المنع الخ
(شامیہ ص ۳۴۳، ج ۵)
رہن کی تعریف کرتے ہوئے علامہ عبد الرحمن جزری الفقہ علی المذاهب الاربعہ میں لکھتے ہیں…. فھو جعل عین لھا قیمہ مالیہ فی النظر الشرع وثیقہ بدین حيث یمکن اخذ الدين أو أخذ بعضہ من تلک العین… یعنی جس چیز کی شرعی قیمت ہو اسے قرض وصول کرنے کی دستاویز اور ضمانت قرار دینا تاکہ اس سے پورا قرض یا اس کا بعض حصہ وصول کر نا ممکن ہو..
مرتہن کو مکان کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے اس لیے کہ شئ مر ہونہ سے نا ہی راہن کو اور نہ ہی مرتہن کو فائدہ حاصل کر نا جائز ہے
( ھدایہ ج ثانی ص 537میں ہے)
ولیس للمرتہن ولا للراھن أن یا خذہ منہ… اگر مرتہن نے اس کو کرایہ پر دیدیا تو جتنا کرایہ وصول کیا ہے وہ اصل رہن سے عوض (منہا) کر لیا جائے گا ورنہ خالص سود ہوگا…

امام احمدرضا اور اصلاح معاشرہ…. معاشرہ میں پھیلی ان گنت برائیوں کاسد باب فکر رضا کی روشنی… تعلیماتِ امام احمد رضا علیہ الرحمہ

ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ امام احمد ﺭﺿﺎ ﺍﻭﺭاصلاح معاشرہ
ﻣﺤﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﻣﺮﮐﺰﯼ
خادم التدریس والافتاء
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں
8446974711
ﺩﻧﯿﺎﺋﮯﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﺷﺨﺼﯿﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﻭﻋﻘﻞ ﺍﻭﺭ ﺑﺼﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎﮐﻮ ﻣﺴﺘﻔﯿﺾ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﺤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﺑﻦ ﺳﯿﻨﺎ، ﻋﻤﺮﺧﯿﺎﻡ، ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺍﺯﯼ، ﺍﻣﺎﻡ ﻏﺰﺍﻟﯽ، ﺍﻟﺒﯿﺮﻭﻧﯽ، ﻓﺎﺭﺍﺑﯽ، ﺍﺑﻦ ﺭﺷﺪﻭﻏﯿﺮﮦ ﻭﮦ ﺷﺨﺼﯿﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻋﻠﻤﯽ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﺭﮨﺘﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﮏ ﻓﺨﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ، ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﻭﺣﮑﻤﺖ ﮐﺎﺍﻣﺎﻡ ﮨﮯ۔ﮐﻮﺋﯽ ﺭﯾﺎﺿﯽ ﻭﮨﯿﺖ ﮐﺎ، ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﺍﺧﻼﻕ ﮐﺎ، ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﯾﻮﻧﺎﻥ ﮐﺎ،ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﺳﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﮨﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﻭﮦ ﺫﺍﺕ ﺳﺘﻮﺩﮦ ﻭﺍﻻﺻﻔﺎﺕ ” ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ )” ﻭﻻﺩﺕ : ۱۴ﺟﻮﻥ۱۸۵۶ﺀ، ۱۰ﺷﻮﺍﻝ ﺍﻟﻤﮑﺮﻡ ۱۲۷۲ﮪ ﺍﻭﺭ ﻭﻓﺎﺕ : ﻧﻮﻣﺒﺮ ۱۹۲۱ﺀ،۲۵ﺻﻔﺮ ﺍﻟﻤﻈﻔﺮ ۱۳۴۰ﮪ ‏) ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﺫﯾﻞ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎﺋﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺑﻄﻞ ِﺟﻠﯿﻞ ،ﭼﻮﺩﮨﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﮐﮯ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻋﻈﻢ ،ﻣﻌﻤﺎﺭ ﻗﻮﻡ ﻭ ﻣﻠﺖ ِﺍﺳﻼﻣﯿﮧ ،ﻓﻘﯿﮩﮧ ﺍﻋﻈﻢ ِﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻋﻠٰﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞﺒﺮﯾﻠﻮﯼ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﭘﺮ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺽ ﮨﮯ ۔ﮐﯿﻮ ﻧﮑﮧ ﺍٓﭖ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﻭﺭﺳﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﻋﻠﻤﺒﺮﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺗﺮﯾﻦ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﻘﺪﺱ ﺣﻨﻔﯿﺖ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮔﺮﻡ ﻣﺒﻠﻎ ﻭﺑﯿﺒﺎﮎ ﺗﺮﺟﻤﺎﻥ ﺗﮭﮯ ۔ﻣﮕﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﮧ ﺳﻨﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺱ ٘ﻣﺤﺴﻦ ﮐﮯ ﻋﻠﻤﯽ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﮐﻤﺎ ﺣﻘﮧ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮐﯿﺎﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻧﺎﺑﻐﮧ ﻋﺼﺮ ﮐﯽ ﻋﻠﻤﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﺳﮯ ﺍٓﺷﻨﺎ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﺯﺣﻤﺖ ﮨﯽ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﮐﯽ ۔ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﻣﺨﺎﻟﻔﯿﻦ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﻋﻠﻢ ﻭﻋﺮﻓﺎﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﮬﻮﻝ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺴﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﯽ ۔ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻋﻠﻤﯽ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ۔
ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺤﮑﯿﻢ ﺷﺎﮨﺠﮩﺎﮞ ﭘﻮﺭﯼ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ” ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﻧﮯ ﻣﻘﺪﺱ ﺷﺠﺮﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﻏﯿﺮ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻧﻈﺮﯾﺎﺕ ﮐﯽ ﭘﯿﻮﻧﺪ ﮐﺎﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﮩﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﻧﯿﺰ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺣﻖ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻤﺎ ﺋﮯ ﺳﻮﺀ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ” ﻣﺼﻠﺤﯿﻦ ” ﮐﮯ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﺮ ﮔﺮﻡ ﻋﻤﻞ ﺭﮨﮯ ﺟﻨﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻧﺌﮯ ﻧﺌﮯ ﻓﺮﻗﮯ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺗﺤﺎﺩ ﮐﻮ ﭘﺎﺭﮦ ﭘﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺳﭽﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮑﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﺸﺮﮎ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﻋﺘﯽ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﭨﮭﮩﺮﺍﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ” ۔ ‏( ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﮐﯽ ﻓﻘﺎﮨﺖ ،ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﮑﯿﻢ ﺍﺧﺘﺮ ﺷﺎﮦ ﺟﮩﺎ ﻧﭙﻮﺭﯼ )
ﺍﮔﺮ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﮐﺎﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﺗﻌﺼﺐ ﮐﻮ ﺑﺎﻻﺋﮯ ﻃﺎﻕ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮯ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺟﻤﻠﮧ ﻧﮑﻠﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ” ﺍﺱ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺭﯼ ” ﺑﺪﻋﺎﺕ ﻭﻣﻨﮑﺮﺍﺕ ” ﮐﻮ ﺭﻭﮐﻨﮯ ﮨﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ” ۔ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﻧﮯ ﺍﻣﺖ ِﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﺍﺻﻼﺡ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺻﺮﻑ ﮐﺮ ﺩﯼ ۔ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﺩﻭﺭ ﺣﺎﺿﺮ ﮐﮯ ﺟﻤﻠﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﺎﻥ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺸﻌﻞِ ﺭﺍﮦ ﺍﻭﺭ ﻻﺋﻖ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮨﮯ ۔ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﻧﺎ ﮐﺮ ﮐﮧ ﻣﺨﺎﻟﻔﯿﻦ ﮐﻮ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﻭﮦ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﮐﯿﺎ ﮨﯿﮟ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ،ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ،ﭘﮍﻭﺳﯿﻮﮞ ﮐﻮ ،ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻋﺰﺍﺀ ﻭﺍﻗﺮﺑﺎﺀ ﮐﻮ ﻋﻤﻞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﯾﮟ ۔ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﺮﮐﺖ ﺍﻟﮩٰﯽ ﮐﺎ ﻧﺰﻭﻝ ﮨﻮﮔﺎ۔
ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻣﻞ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ
” ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﺮﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﮐﻮ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﭽﺎ ﺟﺎﻧﻨﺎ،ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﮐﯽ ﺣﻘﺎﻧﯿﺖ ﮐﻮ ﺻﺪﻕ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮨﮯ ۔ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻘﺮ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺟﺎﻧﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﻗﻮﻝ ﯾﺎ ﻓﻌﻞ ﯾﺎﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﷺﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﯾﺎ ﺗﮑﺬﯾﺐ ﯾﺎ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﻧﮧ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺋﮯ۔ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝﷺﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﭘﺮ ﻏﺎﻟﺐ ﮨﻮﺍﻟﻠﮧ ﻭﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﮐﮯ ﻣﺤﺒﻮﺑﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺭﮐﮭﮯ ۔ﺍﮔﺮ ﭼﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺭﺳﻮﻝﷺ ﮐﮯ ﻣﺨﺎﻟﻔﻮﮞ ﺑﺪﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻋﺪﺍﻭﺕ ﺭﮐﮭﮯ ﺍﮔﺮ ﭼﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﮕﺮ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﮨﻮﮞ ۔ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺩﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺭﻭﮐﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﻭﮐﮯ ۔ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ” ﻣﻦ ﺍﺣﺐ ﻟﻠﮧ ﻭﺍﺑﻐﺾ ﻟﻠﮧ ﻭﺍﻋﻄﯽ ﻟﻠﮧ ﻭﻣﻨﻊ ﻟﻠﮧ ﻓﻘﺪ ﺍﺳﺘﮑﻤﻞ ﺍﻻﯾﻤﺎﻥ ” ۔
ﺍٓﺝ ﮐﻞ ﯾﮧ ﻓﯿﺸﻦ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ ۔ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﺍ ﭘﮩﻨﻨﺎ، ‏( ﻏﯿﺐ ﺩﺍﮞ ﻧﺒﯽ ﷺ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﯽ ﻧﺸﺎ ﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺮﺍﯾﺎ ﮨﮯ ‏) ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺳﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ
” ﺍٓﺯﺍﺩ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺮ ﺳﮯ ﭘﺎﻭٔﮞ ﺗﮏ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺪﻥ ﮐﺎ ﭼﮭﭙﺎﻧﺎ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﭼﮩﺮﮦ ﯾﻌﻨﯽ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﭙﭩﯽ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮐﻨﭙﭩﯽ ﺗﮏ ‏( ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﺎ ﮐﺎﻥ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺼﮧ ﺩﺍﺧﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮧ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺎ ‏) ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﺎﻻﺗﻔﺎﻕ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﻧﺎ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﭩﻮﮞ ﺗﮏ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﻭﺭ ﭨﺨﻨﻮﮞ ﺗﮏ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭘﺎﻭٔﮞ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻋﻀﻮ ﮐﺎ ﭼﻮﺗﮭﺎﺋﯽ ﺣﺼﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻗﺼﺪﺍ ﮐﮭﻮﻟﮯ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺍﯾﮏ ﺍٓﻥ ﮐﻮ ﯾﺎ ﺑﻼ ﻗﺼﺪ ﺑﻘﺪﺭ ﺍﺩﺍﺋﮯ ﺭﮐﻦ ﯾﻌﻨﯽ ﺗﯿﻦ ﺑﺎﺭ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﯽ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﮐﮭﻼ ﺭﮨﮯ ﺗﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﯽ ۔ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺑﺪﺏ ﻧﻈﺮ ﺍٓﺋﮯ ﯾﺎ ﺭﻧﮕﺖ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﯾﺎ ﺳﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﮨﯽ ﭼﻤﮑﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﯽ ” ۔
ﺑﭽﮧ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﭘﺮ ﺑﭽﮯ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﻧﺎ ﻡ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ
” ﺍﯾﮏ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﺤﻤﺪ ﯾﺎ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺎ ۔ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﺑﺎﭖ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺨﺸﮯ ﮔﺎ۔ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮞﮩﮯ ﮐﮧ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﻣﻼﺋﮑﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﻦ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﺤﻤﺪ ﯾﺎ ﺍﺣﻤﺪ ﮨﮯ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﻭٔ۔ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﻼﺋﮑﮧ ﺍﺱ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮐﻮ ﺍٓﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﺤﻤﺪ ﯾﺎ ﺍﺣﻤﺪ ﮨﮯ۔ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﻣﺸﻮﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍ ﺱ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﺍٓﺩﻣﯽ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮐﺖ ﺭﮐﮭﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ۔ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﮐﯿﺎ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﯾﺎ ﺗﯿﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﮨﻮﮞ ” ۔
ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺴﻨﻮﻥ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ؟ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ” ۔ﮐﮧ
” ﺩﺍﮨﻨﺎ ﭘﺎﻭٔﮞ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﯾﺎ ﮞ ﺑﭽﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﭨﯽ ﺑﺎ ﺋﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﺍﮨﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺗﻮﮌﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ۔ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﻋﺎﺩﺕِ ﻣﺘﮑﺒﺮﯾﻦ ﮨﮯ ” ۔
ﺍﻭﺭ ﻭﻟﯿﻤﮧ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
” ﻭﻟﯿﻤﮧ ﺑﻌﺪ ﺯﻓﺎﻑ ﺳﻨﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺻﯿﻐﮧ ﺍﻣﺮ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻋﻮﻑ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ” ﺍﻭ ﻟﻢ ﻭﻟﻮ ﺷﺎۃ ” ﻭﻟﯿﻤﮧ ﮐﺮﻭ ﺍﮔﺮ ﭼﮧ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺩﻧﺒﮧ ﯾﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﮑﺮﯼ ” ۔
ﻧﻮﺷﮧ ﮐﺎﺳﮩﺮﺍ :
” ﺧﺎﻟﯽ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﮩﺮﺍ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ۔ ﺍﻭﺭﯾﮧ ﺑﺎﺟﮯ ﺟﻮ ﺷﺎﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﺞ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﻭ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﯿﮟ ۔ﻧﻮﺷﮧ ﮐﻮ ﺍﺑﭩﻦ ﮐﮧ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮨﮯﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ” ۔ﺍﻭﺭ ” ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﻮ ﭼﮭﻮﺍﺭﮮ ﻟﭩﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺭﻭﺍﺝ ﮨﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﯾﻒ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﭩﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺩﺍﺭ ﻗﻄﻨﯽ ﻭﺑﯿﮩﻘﯽ ﻃﺤﻄﺎﻭﯼ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ” ۔
ﻃﻠﺐ ﻭﺑﯿﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ :
” ﻃﺎﻟﺐ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻃﻠﺐ ﺻﺮﻑ ﻓﯿﺾ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﭘﻮﺭﮮ ﻃﻮﺭ ﺳﮯ ﺑﮑﻨﺎ ۔ﺑﯿﻮﺕ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﭼﺎﺭ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﻭﺭﻧﮧ ﺑﯿﻌﺖ ﺟﺎﺋﺰ ﯾﮧ ﮨﻮ ﮔﯽ ۔ﺍﻭﻻ ﺳﻨﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻟﻌﻘﯿﺪﮦ ﮨﻮ ﺛﺎﻧﯿﺎ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺍﺗﻨﺎ ﻋﻠﻢ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﻼ ﮐﺴﯽ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﺘﺎﺏ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﻧﮑﺎﻝ ﺳﮑﮯ ۔ﺛﺎﻟﺜﺎﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﺗﮏ ﻣﺘﺼﻞ ﮨﻮ ۔ﮐﮩﯿﮟ ﻣﻨﻘﻄﻊ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔ ﺭﺍﺑﻌﺎﻓﺎﺳﻖ ِ ﻣﻌﻠﻦ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﯾﺪ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﯿﻌﺖ ﺑﻄﻮﺭ ﺭﺳﻢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺑﯿﻌﺖ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﯾﺤﯿﯽٰ ﻣﻨﯿﺮﯼ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﯾﺪ ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺏ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﻀﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﮐﮧ ﺗﺠﮭﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﻮﮞ ۔ ﺍﻥ ﻣﺮﯾﺪ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﺣﻀﺮﺕ ﯾﺤﯿﯽٰ ﻣﻨﯿﺮﯼ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺩﮮ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﻀﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﯾﺤﯿﯽٰ ﻣﻨﯿﺮﯼ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﯿﺎ ” ۔
ﻭﻗﺖ ﺩﻓﻦ ﺍﺫﺍﻥ ﮐﮩﻨﺎ :
” ﻭﻗﺖ ﺩﻓﻦ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﻓﻊ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﮩﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺫﺍﻥ ﺟﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺷﯿﻄﺎﻥ ۳۶ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﺑﮭﺎﮒ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﻭﺣﺎ ﺗﮏ ﺑﮭﺎ ﮔﺘﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺣﺎ ﻣﺪﻧﯿﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﺳﮯ ۳۶ ﻣﯿﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻭﻗﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺩﺧﻞ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﺎ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﻣﻨﮑﺮ ﻧﮑﯿﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﻦ ﺭﺑﮏ ،ﺗﯿﺮﺍ ﺭﺏ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ۔ﯾﮧ ﻟﻌﯿﻦ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮑﻮ ﮐﮩﮧ ﺩﮮ ﺟﺐ ﺍﺫﺍﻥ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺑﮭﺎﮒ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﺳﻮﺳﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ” ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺧﻀﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﺒﯽ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ
” ﺟﻤﮩﻮﺭ ﮐﺎ ﻣﺬﮨﺐ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻧﺒﯽ ﮨﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺧﺪﻣﺖِ ﺑﺤﺮ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺑﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻭﺭ ﻣﺰﯾﺪ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﭼﺎﺭ ﻧﺒﯽ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻭﻋﺪﮦ ﺍﻟﮩﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍٓﯾﺎ ۔ﯾﻮﮞ ﺗﻮ ﮨﺮ ﻧﺒﯽ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺣﺮﻡ ﻋﻠﯽ ﺍﻻﺭﺽ ﺍﻥ ﮮﺍﮐﻞ ﺍﺟﺴﺎﺩ ﺍﻻﻧﺒﯿﺎﺀ ﻓﻨﺒﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺣﯽ ﯾﺮﺯﻕ۔ﺑﮯ ﺷﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﯿﺎ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮐﮧ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﻟﺼﻼۃﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﺟﺴﻤﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﺮﺍﺏ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺭﺯﻕ ﺩﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺍٓﻥ ﮐﻮ ﻣﺤﺾ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﻭﻋﺪﮦ ﺍﻟﮩﯿﮧ ﻟﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﻮﺕ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ۔ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺣﯿﺎﺕ ِﺣﻘﯿﻘﯽ ﺣﺴﯽ ﺩﻧﯿﻮﯼ ﻋﻄﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ۔ﺧﯿﺮ ﺍﻥ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮﺣﻀﺮ ﻭﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮩﻤﺎ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﺭﯾﺲ ﻭﺭﻋﯿﺴٰﯽ ﻋﻠﯿﮩﻤﺎ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ” ۔
ﺗﺤﯿۃ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﻓﻀﯿﻠﺖ :
” ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﻼﻝ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﮮ ﺑﻼﻝ ﮐﯿﺎ ﺳﺒﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍٓﮔﮯ ﺍٓﮔﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻭﺿﻮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺩﻭ ﺭﮐﻌﺖ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﻔﻞ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﯾﮩﯽ ﺳﺒﺐ ﮨﮯ ” ۔
ﺣﺮ ﻣﺖ ِﺳﺠﺪﮦ ِﺗﻌﻈﯿﻤﯽ :
” ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ! ﺍﮮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ! ﺍﮮ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻣﺼﻄﻔﻮﯼ ﮐﮯ ﺗﺎﺑﻊ ﻓﺮﻣﺎﻥ ! ﺟﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﯾﻘﯿﻦ ﺟﺎﻥ ﮐﮧ ﺳﺠﺪﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﺕ ﻋﺰ ﺟﻼﻟﮧ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﮩﯿﮟ ۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﻏﯿﺮ ﮐﻮ ﺳﺠﺪﮦ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺗﻮ ﯾﻘﯿﻨﺎًﺍﺟﻤﺎﻋﺎًﺷﺮﮎ ﻣﮩﯿﻦ ﻭﮐﻔﺮ ﻣﺒﯿﻦ ﺍﻭﺭﺳﺠﺪﮦ ﺗﺤﯿﺖ ﺣﺮﺍﻡ ﻭﮔﻨﺎﮦ ﮐﺒﯿﺮﮦ ﺑﺎﻟﯿﻘﯿﻦ ۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﻔﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺩﯾﻦ ۔ﺍﯾﮏ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﻓﻘﮩﺎ ﺀﺳﮯﺗﮑﻔﯿﺮِﻣﻨﻘﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﻋﻨﺪﺍﻟﺘﺤﻘﯿﻖ ﮐﻔﺮ ﺻﻮﺭﯼ ﭘﺮ ﻣﺤﻤﻮﻝ۔ﮐﻤﺎ ﺳﯿﺎﺗﯽ ﺑﺘﻮﻓﯿﻖ ﺍﻟﻤﻮﻟﯽ ﺳﺒﺤﺎﻧﮧ ﻭﺗﻌﺎﻟٰﯽ ” ۔
ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭﷺ ﮐﻮ ﺳﺠﺪﮦ ﺗﺤﯿﺖ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﭼﺎﮨﯽ ۔ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﻮﺍﮐﯿﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﻔﺮ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﮟ ۔ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺳﺠﺪﮦ ﺗﺤﯿﺖ ﺍﯾﺴﯽ ﻗﺒﯿﺢ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﮐﻔﺮ ﺳﮯ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ۔ﺟﺐ ﺧﻮﺩﺣﻀﻮﺭ ﺍﻗﺪﺱ ﷺﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﺗﺤﯿﺖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﻭﺭﻭﮞ ﮐﺎﮐﯿﺎ ﺫﮐﺮ۔ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﮭﺎﺩﯼ‏( ﺍﻟﺰﺑﺪۃﺍﻟﺰﮐﯿﮧ )
ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺯﯾﺎﺭﺕِ ﻗﺒﻮﺭ :
” ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﻗﺒﻮﺭ ﻣﻨﻊ ﮨﮯ ۔ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﻟﻌﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﺯﺍﺋﺮﺍﺕ ﺍﻟﻘﺒﻮﺭ،ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻟﻌﻨﺖ ﺍﻥ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﭘﺮ ﺟﻮ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮐﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔ﻣﺠﺎﻭﺭ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ۔ﻋﻮﺭﺕ ﻣﺠﺎﻭﺭ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺧﺘﻼﻁ ﮐﺮﮮ ﯾﮧ ﺳﺨﺖ ﺑﺪﻋﺖ ﮨﮯ ،ﻋﻮﺭ ﺕ ﮐﻮ ﮔﻮﺷﮧ ﻧﺸﯿﻨﯽ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ۔ﻧﮧ ﯾﻮﮞ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺧﺘﻼﻁ ﮐﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﻌﺾ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺳﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ” ۔ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻋﻠﻢ
ﺍﺟﻤﯿﺮ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﮐﯿﺴﺎ ؟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﮨﯿﮟ
” ﻏﻨﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﭘﺮﺟﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮧ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﭘﺮ ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﻟﻌﻨﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﺻﺎﺣﺐ ِﻗﺒﺮ ﮐﯽ ۔ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﻟﻌﻨﺖ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺗﮏ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﻼﺋﮑﮧ ﻟﻌﻨﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺭﻭﺿﮧ ﺍﻧﻮﺭ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺍﺭ ﮨﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ ۔ﻭﮨﺎﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﺿﺮ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺳﻨﺖِ ﺟﻠﯿﻠﮧ ﻋﻈﯿﻤﮧ ﻗﺮﯾﺐ ﺑﻮﺍﺟﺒﺎﺕ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺁﻥ ﻋﻈﯿﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯﻣﻐﻔﺮﺕ ِﺫﻧﻮﺏ ﮐﺎ ﺗﺮﯾﺎﻕ ﺑﻨﺎﯾﺎ ” ﻭﻟﻮ ﺍﻧﮭﻢ ﺍﺫ ﻇﻠﻤﻮﺍﺍﻧﻔﺴﮭﻢ ﺟﺎﻭٔﮎ ﻓﺎﺳﺘﻐﻔﺮﺍ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﺳﺘﻐﻔﺮﻟﮭﻢ ﺍﻟﺮﺳﻮﻝ ﻟﻮﺟﺪﻭﺍ ﻟﻠﮧ ﺗﻮﺍﺑﺎًﺭﺣﯿﻤﺎ ” ۔ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻧﻮﮞﭙﺮ ﻇﻠﻢ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺣﻀﻮﺭ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﮞ ۔ﭘﮭﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﭼﺎﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻣﺎﻧﮕﮯﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﺗﻮﺑﮧ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ۔
ﺧﻮﺩ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﻮﺍ ” ﻣﻦ ﺯﺍﺭﻗﺒﺮﯼ ﻭﺟﺒﺖ ﻟﮧ ﺷﻔﺎﻋﺘﯽ ” ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺰﺍﺭ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮐﻮ ﺣﺎﺿﺮﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﻔﺎﻋﺖ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ۔ ” ﻣﻦ ﺣﺞ ﻭﻟﻢ ﯾﺰﺭﻧﯽ ﻓﻘﺪ ﺟﻔﺎﻧﯽ ” ﺟﺲ ﻧﮯ ﺣﺞ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺁﯾﺎﺑﮯ ﺷﮏ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺟﻔﺎ ﮐﯽ ۔ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﺩﺍﺋﮯ ﻭﺍﺟﺐ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻗﺒﻮﻝ ﺗﻮﺑﮧ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺩﻭﻟﺖ ِﺷﻔﺎﻋﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﻧﺎﭼﻮﺗﮭﮯ ﺳﺮﮐﺎﺭﷺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻌﺎﺫ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﻔﺎﺳﮯ ﺑﭽﻨﺎ ۔ﯾﮧ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﮨﻢ ﺍﻣﻮﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﮐﻨﯿﺰﻭﮞ ﭘﺮ ﺧﺎﮎ ﺑﻮﺳﯿﺂﺳﺘﺎﻥ ﻋﺮﺵ ﻧﺸﺎﻥ ﻻﺯﻡ ﮐﺮ ﺩﯼ ۔
ﺑﺨﻼﻑ ﺩﯾﮕﺮ ﻗﺒﻮﺭ ﻭﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﮐﮯﮐﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﯾﺴﯽ ﺗﺎﮐﯿﺪﯾﮟ ﻣﻔﻘﻮﺩ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺘﻤﺎﻝ ِﻣﻔﺴﺪﮦ ﻣﻮﺟﻮﺩ۔ﺍﮔﺮ ﻋﺰﯾﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﯾﮟ ﮨﯿﮟ ﺑﮯ ﺻﺒﺮﯼ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﯽ ۔ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﺤﺘﻤﻞ ﮐﮧ ﺑﮯ ﺗﻤﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺍﺩﺑﯽ ﮐﺮﮮ ۔ﯾﺎ ﺟﮩﺎﻟﺖ ﺳﮯ ﺗﻌﻈﯿﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﻓﺮﺍﻁ۔ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻭﻣﺸﺎﮨﺪ ﮨﮯ ۔ﻟﮩﺬﺍ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺍﺳﻠﻢ ﺍﺣﺘﺮﺍﺯ ﮨﯽ ﮨﮯ۔
ﮐﻔﺎﯾﮧ ﺷﻌﺒﯽ ﭘﮭﺮ ﺗﺎ ﺗﺎﺭﺧﺎﻧﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ۔ﺍﻣﺎﻡ ﻗﺎﺿﯽ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﮎ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ؟ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯﭘﻮ ﭼﮭﻮ ﮐﮧ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﺘﻨﯽ ﻟﻌﻨﺖ ﮨﻮ ﮔﯽ ۔۔ﺧﺒﺮﺩﺍﺭ ! ﺟﺐ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻟﻌﻨﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﺳﺐ ﻃﺮﻑ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﯿﺮﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﺖ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻟﻌﻨﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﭘﻠﭩﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻟﻌﻨﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﮨﮯ ۔ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﻭﺧﺎﮎ ﺑﻮﺳﯿِﺂﺳﺘﺎﻥِ ﻋﺮﺵ ﻧﺸﺎﻥ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﷺﺍﻋﻈﻢ ﺍﻟﻤﻨﺪﻭﺑﺎﺕ ﺑﻠﮑﮧ ﻗﺮﯾﺐ ﻭﺍﺟﺒﺎﺕ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺭﻭﮐﯿﮟ ﺗﻌﺪﯾﻞ ِﺍﺩﺏ ﺳﮑﮭﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔
ﺣﺮﻣﺖِ ﻣﺰﺍﻣﯿﺮ :
” ﻣﺰﺍﻣﯿﺮ ﯾﻌﻨﯽ ﺁﻻﺕ ِﻟﮩﻮ ﻭﻟﻌﺐ ﺑﺮ ﻭﺟﮧ ﻟﮩﻮ ﻭﻟﻌﺐ ﺑﻼ ﺷﺒﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺣﺮﻣﺖ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﻭﻋﻠﻤﺎﺀ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻓﺮﯾﻖ ﻣﻘﺘﺪﺍ ﮐﮯ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﻋﺎﻟﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﺡ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﻨﻨﮯ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺑﻌﺪ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﮐﺒﯿﺮﮦ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﻋﻠﯿﮧ ّﺳﺎﺩﺍﺕ ِﺑﮩﺸﺖ ﮐﺒﺮﺍﺋﮯ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﻋﺎﻟﯿﮧ ﭼﺸﺖ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮭﻢ ﻭﻋﻨّﺎ ﻭﺑﮭﻢ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ٘ﻣﺤﺾ ﺑﺎﻃﻞ ﻭﺍﻓﺘﺮﺍ ﮨﮯ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪﯼ ﻓﺨﺮﺍﻟﺪﯾﻦ ﺯﺭّﺍﯼ ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺍﻟﮩٰﯽ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﻻﻭﻟﯿﺎﺀ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﻟﺤﻖ ﻭﺍﻟﺪﻧﯿﺎ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻣﺤﻤﺪﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﻤﺎ ﮐﮯ ﺍﺟﻠﮧ ﺧﻠﻔﺎﺀ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺧﺎﺹ ﻋﮩﺪِﮐﺮﺍﻣﺖ ﻣﮩﺪِﺣﻀﻮﺭ ﻣﻤﺪﻭﺡ ﻣﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺧﻮﺩ ﺑﺤﮑﻢ ﻭﺍﻻ ،ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺳﻤﺎﻉ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﺎﻟﮧ ” ﮐﺸﻒ ﺍﻟﻘﻨﺎﻉ ﻋﻦ ﺍﺻﻮﻝ ﺍﻟﺴﻤﺎﻉ ” ﺗﺎﻟﯿﻒ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ۔ﺁﭖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﺭﺳﺎﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮧ ” ﺑﻌﺾ ﻣﻐﻠﻮﺏ ﺍﻟﺤﺎﻝ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻠﺒﮧ ﺣﺎﻝ ﻭﺷﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺎﻉ ﻣﻊ ﻣﺰﺍﻣﯿﺮ ﺳﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺮﺍﻥ ﻃﺮﯾﻘﺖ ﺭﺟﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮩﻢ ﮐﺎ ﺳﻨﻨﺎ ﺍﺱ ﺗﮩﻤﺖ ﺳﮯ ﺑﺮﯼ ﮨﮯ ۔ﻭﮦ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﻗﻮﺍﻝ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯﮨﮯ ﺍﻥ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮ ﮐﻤﺎﻝ ِﺻﻨﻌﺖ ِﺍﻟﮩٰﯽ ﺟﻞ ّﻭﻋﻼ ﺳﮯ ﺧﺒﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺑﻠﮑﮧ ﺧﻮﺩ ﺣﻀﻮﺭ ﻣﻤﺪﻭﺡ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻠﻔﻮﻇﺎﺕ ﺷﺮﯾﻔﮧ ” ﻓﻮﺍﺋﺪ ﺍﻟﻔﻮﺍ ﺩ ” ﻭﻏﯿﺮﮨﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺑﺠﺎ ﺣﺮﻣﺖ ِﻣﺰﺍﻣﯿﺮ ﮐﯽ ﺗﺼﺮﯾﺢ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﻭﺍﻻﺻﺮﻑ ﺗﺎﻟﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﻊ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮐﮧ ﻣﺸﺎﺑﮧ ِﻟﮩﻮ ﮨﮯ ،ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻓﻌﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻋﺬﺭ ِﻏﻠﺒﮧ ﺣﺎﻝ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮐﮧ ﻣﺪﻋﯿﺎﻥ ِﺑﺎﻃﻞ ﮐﻮ ﺭﺍﮦ ﻧﮧ ﻣﻠﮯ ۔ﻓﻮﺍﺋﺪ ﺍﻟﻔﻮﺍﺩ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﺻﺎﻑ ﺗﺼﺮﯾﺢ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ” ﻣﺰﺍﻣﯿﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﺍﺳﺖ ” ﺣﻀﻮﺭ ﻣﻤﺪﻭﺡ ﮐﮯ ﯾﮧ ﺍﺭﺷﺎﺩﺕ ِﻋﺎﻟﯿﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺳﻨﺪ ﮐﺎﻓﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺍﮨﻞ ﮨﻮﺍ ﻭﮨﻮﺱ ﻣﺪﻋﯿﺎﻥ ِﭼﺸﺖ ﭘﺮ ﺣﺠﺖ ِﻭﺍﻓﯽ۔ﮨﺎﮞ ﺟﮩﺎﺩ ﮐﺎ ﻃﺒﻞ ،ﺳﺤﺮﯼ ﮐﺎ ﻧﻘﺎﺭﮦ ،ﺣﻤﺎﻡ ﮐﺎ ﺑﻮﻕ،ﺍﻋﻼﻥ ِﻧﮑﺎﺡ ﮐﺎ ﻧﮯ ﺟﻼﺟِﻞ ﺩﻑ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺁﻻﺕ ِﻟﮩﻮ ﻭﻟﻌﺐ ﻧﮩﯿﮟ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯿﻄﺮﺡ ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ” ﺍﻟﻐﻨﺎﺀ ﯾﻨﺒﺖ ﺍﻟﻨﻔﺎﻕ ﮐﻤﺎ ﯾﻨﺒﺖ ﺍﻟﻤﺎﺀﺍﻟﺒﻘﻞ )” ﮔﺎﻧﺎ ﻧﻔﺎﻕ ﮐﻮ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﻗﻠﻮﺏ ﻃﺮﺡ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﭘﺎﻧﯽ ﻓﺼﻞ ﮐﻮ )
ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺣﻤﺪ ﻭﻧﻌﺖ ﻭﻣﻨﻘﺒﺖ ﻭﻭﻋﻆ ﻭﭘﻨﺪ ﻭﺫﮐﺮ ﺁﺧﺮﺕ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﯾﺎ ﺟﻮﺍﻥ ﻣﺮﺩ ﺧﻮﺵ ﺍﻟﺤﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮧ ﻧﯿﺖ ﻧﯿﮏ ﺳﻨﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﻋﺮﻑ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﻊ ﭘﺮﺗﻮ ﺷﺮﻉ ﺳﮯ ﺍﺻﻼًﺩﻟﯿﻞ ﻧﮩﯿﮟ ۔
ﺣﻀﻮﺭ ﭘﺮ ﻧﻮﺭ ﷺ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺧﺎﺹ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺒﺮ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻧﻌﺖ ﺍﻗﺪﺱ ﺳﻨﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﻗﺪﺱ ﷺ ﻭﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻤﺎﻉ ﻓﺮﻣﺎﻧﺎ ﺧﻮﺩ ﺻﺤﯿﺢ ﺣﺪﯾﺚ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﻒ ﺳﮯ ﻭﺍﺿﺢ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺏ ﮐﮯ ﺭﺳﻢ ﺣﺪﯼ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺗﺎﺑﻌﯿﻦ ﺑﻠﮑﮧ ﻋﮩﺪ ﺭﺳﺎﻟﺖِ ﺍﻗﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﺞ ﺭﮨﻨﺎ ﺧﻮﺵ ﺍﻟﺤﺎﻧﯽ ِﺭﺟﺎﻝ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺯ ﭘﺮ ﺩﻟﯿﻞ ﻻﺋﺢ ،ﺍﻧﺠﺸﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺣﺪﯼ ﭘﺮ ﺣﻀﻮﺭ ﷺﻧﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻧﮧ ﻓﺮﻣﺎ ﯾﺎﺑﻠﮑﮧ ﺑﻠﺤﺎﻅ ﻋﻮﺭﺍﺕ ” ﺭﻭﯾﺪﮎ ﯾﺎ ﺍﻧﺠﺸﮧ ﻻ ﺗﮑﺴﺮ ﺍﻟﻘﻮﺍﺭﯾﺮ ” ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﻮﺍ۔
ﺑﺎﺟﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺣﺮﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﮯ ۔ﺑﺎﺟﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺮﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﺜﯿﺮﮦ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﯿﮟ ۔ﺣﺪﯾﺚ ِﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺳﯿﺪ ﻋﺎﻟﻢ ﷺ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ” ﻟﯿﮑﻮﻧﻦ ﻓﯽ ﺍﻣﺘﯽ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﻟﯿﺴﺘﺤﻠﻮﻥ ﺍﻟﺤﺮﮦ ﻭﺍﻟﺤﺮﯾﺮ ﻭﺍﻟﺨﻤﺮ ﻭﺍﻟﻤﻌﺎﺯﻑ ” ﺿﺮﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺣﻼﻝ ﭨﮭﺮﺍﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺮﻡ ﮔﺎﮦ ﯾﻌﻨﯽ ﺯﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﺸﻤﯽ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺟﻮﮞ ﮐﻮ۔ﺣﺪﯾﺚ ﺻﺤﯿﺢ ﺟﻠﯿﻞ ﻣﺘﺼﻞ ﮨﮯ ۔
ﺑﻌﺾ ﺧﺎﻧﻘﺎﮨﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﭘﺸﺘﮩﺎ ﭘﺸﺖ ﺳﮯ ﻗﻮﺍﻟﯿﺎ ﮞ ﮨﻮﺗﯽ ﭼﻠﯽ ﺁﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﺭﺣﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ” ﺧﺎﻟﯽ ﻗﻮﺍﻟﯽ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺍﻣﯿﺮ ﺣﺮﺍﻡ۔ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻏﻠﻮ ﺍﺏ ﻣﻨﺘﺴﺒﺎﻥِ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﻋﺎﻟﯿﮧ ﭼﺸﺘﮧ ﮐﻮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﻟﻤﺸﺎﺋﺦ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺍﻟﮩٰﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﻓﻮﺍﺋﺪ ﺍﻟﻔﻮﺍﺩ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ” ﻣﺰﺍﻣﯿﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﺍﺳﺖ ” ۔ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺷﺮﻑ ﺍﻟﻤﻠۃ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﯾﺤﯽٰ ﻣﻨﯿﺮﯼ ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﻧﮯ ” ﻣﺰﺍﻣﯿﺮ ﮐﻮ ﺯﻧﺎ ” ﺳﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ۔
ﻓﺘﺎﻭﯼ ﺭﺿﻮﯾﮧ ﺟﻠﺪ ﺩﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺻﻔﺤﮧ ۱۹۹ﺳﮯ
۲۰۰ﭘﺮ ﻧﯿﺰ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺻﻔﺤﮧ ۵۴ﺗﺎ۵۶ﭘﺮ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺳﮯ ﺣﮑﻢ ﻣﺰﺍﻣﯿﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ” ﻣﺘﺼﻮﻓﮧ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮐﮧ ﻣﺰﺍﻣﯿﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻗﻮﺍﻟﯽ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭼﮭﻠﻨﮯ ﮐﻮﺩﻧﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﭼﻨﮯ ﮔﺎﻧﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﮔﺎﻧﺎ ﺑﺠﺎﻧﺎ ﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ۔ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﻣﺸﺎﺋﺦ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﮔﺎﻧﮯ ﮐﺎﮐﻮﺋﯽ ﺛﺒﻮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ۔ﺟﻮ ﭼﯿﺰ ﻣﺸﺎﺋﺦ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻓﻘﻂ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﻌﺮ ﭘﮍﮬﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺣﺎﻝ ﻭﮐﯿﻒ ﮐﮯ ﻣﻮﺍﻓﻖ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﻭﺭﻗﺖ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﮔﺊ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺧﻮﺩ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮐﮭﮍ ﮮ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺣﺎﻝ ﻭﺍﺭﻓﺘﮕﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺣﺮﮐﺎﺕ ﻏﯿﺮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﯾﮧ ﺻﺎﺩﺭ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ۔
” ﻣﺸﺎﺋﺦ ﻭﺑﺰﺭﮔﺎﻥ ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻣﺘﺼﻮﻓﮧ ﮐﮯ ﺣﺎﻝ ﻭﻗﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﯿﻦ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﻓﺮﻕ ﮨﮯ ۔ﯾﮩﺎﮞ ﻣﺰﺍﻣﯿﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﻔﻠﯿﮟ ﻣﻨﻌﻘﺪ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻓﺴﺎﻕ ﻭﻓﺠﺎﺭ ﮐﺎ ﺍﺟﺘﻤﺎﻉ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﺎ ﺍﮨﻠﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺠﻤﻊ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮔﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺑﺮ ﺷﺮﻉ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ،ﺗﺎﻟﯿﺎ ﮞ ﺑﺠﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺍﻣﯿﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺏ ﺍﭼﮭﻠﺘﮯ ﮐﻮﺩﺗﮯ ﻧﺎﭼﺘﮯ ﮔﺎﺗﮯ ﺗﮭﺮﮐﺘﮯ ﮨﯿﮞﺎﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺣﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻥ ﺣﺮﮐﺎﺕ ﮐﻮ ﺻﻮﻓﯿﺎﺋﮯ ﮐﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻧﺴﺒﺖ۔ﯾﮩﺎﮞ ﺳﺐ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﯼ ﮨﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﯼ ﺗﮭﯿﮟ ” ۔ ‏( ﺑﮩﺎﺭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺹ۱۳۱،ﺷﺎﻧﺰﺩﮨﻢ )
ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﻣﺰﺍﻣﯿﺮ ﮐﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺳﮯ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﻣﺤﻘﻖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ” ﻣﺰﺍﻣﯿﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﺮ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﺍﻡ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ،ﻟﻮﮒ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﮔﻨﺎﮦ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﺎ ﻣﻨﺴﻮﺥ ﮐﺮﻧﺎ ﻓﺎﺳﻘﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ ” ۔ ‏( ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺭﺿﻮﯾﮧ ،ﺝ۲۴،ﺹ۱۳۹ )
ﮬﻨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﻣﯿﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﮐﺖ :
” ﻗﺮﺁﻥ ِﮐﺮﯾﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺰّﺕ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ” ﯾﺎ ﯾﮭﺎ ﺍﻟﺬﯾﻦ ﺍﻣﻨﻮﺍ ﺍﺩﺧﻠﻮﺍ ﻓﯽ ﺍﻟﺴﻠﻢ ﮐﺎﻓۃ ﻭﻻﺗﺘﺒﻌﻮﺍ ﺧﻄﻮﺍﺕ ﺍﻟﺸﯿﻄﺎﻥ ﺍﻧﮧ ﻟﮑﻢ ﻋﺪﻭ ﻣﺒﯿﻦ ” ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﻮﺭﺕ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮ ﺟﺎﻭٔﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﻭﮦ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﻇﺎﮨﺮ ﺩﺷﻤﻦ ﮨﮯ ۔ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﺳﺘﺪﻋﺎ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺘﯿﮟ ﺗﻮﺭﺍﺕ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ ۔ﺍﺱ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺁﯾﮧ ﮐﺮﯾﻤﮧ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ۔ ‏( ﺍﻟﻤﻠﻔﻮﻅ ﺹ ۲۵،۲۶ )
ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﺍﮨﻞ ﮨﻨﻮﺩ ﮐﮯ ﻣﯿﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﮔﺎﮦ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
” ﺍﮨﻞ ﮨﻨﻮﺩ ﮐﮯ ﻣﯿﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﻣﻄﻠﻘﺎًﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ۔ﺍﮔﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﻣﯿﻠﮧ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﻔﺮ ﻭﺷﺮﮎ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔ﮐﻔﺮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯﻭﮞ ﺳﮯ ﭼﻼﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ﺟﺐ ﺗﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺻﻮﺭﺕ ﺳﺨﺖ ﺣﺮﺍﻡ ﻣﻨﺠﻤﻠﮧ ﮐﺒﺎﺋﺮ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﻔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﮐﻔﺮﯼ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﺎﻓﺮ ﮨﮯ۔ﻣﻌﺎﺫ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﮮ ﯾﺎ ﮨﻠﮑﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﺮ ﮨﮯ ۔ﺍﺱ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮑﺎﺡ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭﯾﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﺳﮯ۔ﻭﺭﻧﮧ ﻓﺎﺳﻖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺴﻖ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ۔ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻭﻋﯿﺪ ﺷﺪﯾﺪ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻔﺮﯾﺎﺕ ﮐﺎ ﺗﻤﺎﺷﮧ ﺑﻨﺎﻧﺎﺿﻼﻝ ﺑﻌﯿﺪ ﮨﮯ ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﻣﯿﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ۔ﻟﮩﻮ ﻭﻟﻌﺐ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮐﮧ ﻣﻨﮑﺮﺍﺕ ﻭﻗﺒﺎﺋﺢ ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﻮ ۔ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮑﺮﺍﺕ ﮐﺎ ﺗﻤﺎﺷﮧ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﻠﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﻔﺮﻭﺷﺮﮎ ﮐﺎﮨﮯ ۔ﺟﺎﻧﺎ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﻭﻣﻤﻨﻮﻉ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺟﮕﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﻌﺒﺪ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺒﺪ ﮐﻔﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﮔﻨﺎﮦ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻟﮩﻮﻭﻟﻌﺐ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﭽﮯ ،ﻧﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﻮ ﻧﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ،ﻧﮧ ﻭﮦ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺟﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﮩﻮﻭﻟﻌﺐ ِﻣﻤﻨﻮﻉ ﮐﯽ ﮨﻮ ﮞ ﺑﯿﭽﮯ ﺗﻮ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ۔ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺠﻤﻊ ﮨﮯ ۔ﭘﺮ ﻭﻗﺖ ﻣﺤﻞ ﻟﻌﻨﺖ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺩﻭﺭﯼ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺮ۔ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺧﻮﺩ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺗﻤﺎﺷﮧ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﯾﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﮩﻮ ِﻣﻤﻨﻮﻉ ﮐﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮨﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﻭﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ۔ﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺻﻮﺭﺕ ﺟﻮﺍﺯ ﻣﻄﻠﻖ ﮐﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﮨﻮ۔ﯾﮧ ﺟﺎﻧﺎ ﺣﺴﻦ ﻭﻣﺤﻤﻮﺩ ﮨﮯ۔ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﻣﯿﻠﮧ ﮨﻮ ۔ﺍﯾﺴﺎ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎﺧﻮﺩ ﺣﻀﻮﺭ ﺳﯿﺪ ﻋﺎﻟﻢ ﷺ ﺳﮯ ﺑﺎﺭﮨﺎ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ۔‏( ﻣﻠﺨﺼﺎً،ﻋﺮﻓﺎﻥِ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺹ ۲۷،۲۸ )
” ﮐﺎﻓﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﯿﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﺎﻓﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮑﺎﺡ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺋﮯ۔ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﺴﺎ ﻓﺘﻮﯼٰ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺷﺮﯾﻌﺖ ِﻣﻄﮩﺮﮦ ﭘﺮ ﺍﻓﺘﺮﺍﺀﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﻮﻧﺎ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻨﻊ ﮨﮯ ۔ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ۔ ” ﻣﻦ ﮐﺜﺮﺳﻮﺍﺩﻗﻮﻡ ﻓﮭﻮ ﻣﻨﮭﻢ ” ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ” ﻣﻦ ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻟﻤﺸﺮﮐﯿﻦ ﻭ ﺳﮑﻦ ﻣﻌﮧ ﻓﺎﻧﮧ ﻣﺜﻠﮧ ” ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﻤﻊ ِﮐﻔﺎﺭ ﭘﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻧﮧ ﮔﺰﺭﮮ ﮐﮧ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻟﻌﻨﺖ ﺍﺗﺮﺗﯽ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭﻇﺎﮨﺮ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﯿﻠﮧ ﺻﺪ ﮨﺎ ﮐﻔﺮ ﮐﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﮎ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻣﻤﺎﻧﻌﺖ ﻭﺍﺯﺍﻟﮧ ﻣﻨﮑﺮ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ ۔ﺗﻮ ﺧﻮﺍﮨﯽ ﻧﺨﻮﺍﮨﯽ ﮔﻮﻧﮕﺎ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻓﺮ ﮐﺎ ﺗﺎﺑﻌﺪﺍﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻣﺠﻤﻊ ِﮐﻔﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ ﺍﻭﺭﺍﻥ ﮐﺖ ﮐﻔﺮﯾﺎﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺳﻨﻨﺎ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺫﻟﺖ ﮨﮯ ” ۔ ‏( ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺭﺿﻮﯾﮧ ،ﺹ۶۷،ﺟﻠﺪﺩﮨﻢ )
ﻃﻮﺍﻑ ﻭﺑﻮﺳﮧ ﻗﺒﺮ :
ﺑﻮﺳﮧ ﻭﻃﻮﺍﻑ ﻭﺳﺠﺪﮦ ﻗﺒﺮ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﺗﻌﻈﯿﻢ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔
” ﺑﻼ ﺷﺒﮧ ﻏﯿﺮ ﮐﻌﺒﮧ ﻣﻌﻈﻤﮧ ﮐﺎ ﻃﻮﺍﻑ ِ ﺗﻌﻈﯿﻤﯽ ﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﺳﺠﺪﮦ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺑﻮﺳﮧ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﺎ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﻮﻁ ﻣﻨﻊ ﮨﮯ ” ۔‏( ﺍﺣﮑﺎﻡ ﺷﺮﯾﻌﺖ ،ﺣﺼﮧ ۳،ﺹ۳،ﻭ ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺭﺿﻮﯾﮧ ،ﺟﻠﺪ ﺩﮨﻢ ﺹ۷۷ )
” ﻣﺰﺍﺭﮐﺎ ﻃﻮﺍﻑ ﮐﮧ ﻣﺤﺾ ﺑﮧ ﻧﯿﺖِ ﺗﻌﻈﯿﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻌﻈﯿﻢ ِﻃﻮﺍﻑ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺑﺨﺎﻧﮧ ﮐﻌﺒﮧ ﮨﮯ ۔ﻣﺰﺍﺭ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﻧﮧ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺘﺮ ﺑﭽﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﺏ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ ۔ﺁﺳﺘﺎﻧﮧ ﺑﻮﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺷﺮﻉ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﻣﻤﺎﻧﻌﺖ ﻧﮧ ﺁﺋﯽ۔ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺷﺮﻉ ﻧﮯ ﻣﻨﻊ ﻧﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎﻣﻨﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ۔ﻗﺎﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﺍﻥ ﺍﻟﺤﮑﻢ ﺍﻻﺍﻟﻠﮧ ۔۔ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﺍﻟﭩﮯ ﭘﺎﻭٔﮞ ﺁﻧﺎ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﺯ ﺍﺩﺏ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺍﺩﺏ ﺳﮯ ﺷﺮﻉ ﻧﮯ ﻣﻨﻊ ﻧﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ۔ﮨﺎﮞ ! ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﯾﺎ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﺍﯾﺬﺍﮐﺎ ﺍﻧﺪﯾﺸﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﺣﺘﺮﺍﺯ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﺍﻋﻠﻢ ‏( ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺭﺿﻮﯾﮧ ،ﺹ۸،ﺟﻠﺪ ﭼﮩﺎﺭﻡ،ﻭﻣﺘﺮﺟﻢ ﺹ۵۲۸ﺝ۹ )
ﺑﻮﺳﮧ ﻗﺒﺮ ﻭﻃﻮﺍﻑِ ﻗﺒﺮ ﻭ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍﯾﮏ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔
” ﺑﻌﺾ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﻧﻘﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﮐﺸﻒ ﺍﻟﻐﻄﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ” ﮐﻔﺎﯾﮧ ﺍﻟﺸﻌﺒﯽ ﻣﯿﮟ ﻗﺒﺮ ِﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﺛﺮ ﻧﻘﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ۔ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺢ ﺑﺰﺭﮒ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﺡ ﻣﺸﮑﻮۃٰﻣﯿﮟ ﺑﻌﺾ ﺁﺛﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﺮﺡ ﻧﮧ ﮐﯽ ” ۔ ‏( ﮐﺸﻒ ﺍﻟﻐﻄﺎﺀ،ﻓﺼﻞ ﺩﮨﻢ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﻗﺒﻮﺭ ،ﺹ۷۹ )
ﻣﮕﺮ ﺟﻤﮩﻮﺭ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻣﮑﺮﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮞﺘﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﺣﺘﺮﺍﺯ ﮨﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ۔ﺍﺷﻌۃ ﺍﻟﻠﻤﻌﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ” ﻗﺒﺮ ﮐﻮ ﻧﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﺋﮯ ،ﻧﮧ ﮨﯽ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﮮ ” ۔ ‏( ﺍﺷﻌۃﺍﻟﻠﻤﻌﺎﺕ ،ﺑﺎﺏ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﺍﻟﻘﺒﻮﺭ ،ﺝ۱،ﺹ۷۱۶ )
ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﻗﺎﺭﯼ ” ﻣﻨﺴﮏ ﻣﺘﻮﺳﻂ ” ﻣﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ” ﻃﻮﺍﻑ ﮐﻌﺒﮧ ﮐﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺎﺕ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﻭﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ‏( ﻣﻨﺴﮏ ﻣﺘﻮﺳﻂ ﻣﻊ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﺍﻟﺴﺎﺭﯼ،ﺹ۳۴۲ )
ﻣﮕﺮ ﺍﺳﮯ ﻣﻄﻠﻘﺎًﺷﺮﮎ ﭨﮭﺮﺍ ﺩﯾﻨﺎ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﻃﺎﺋﻔﮧ ﻭﮨﺎ ﺑﯿﮧ ﮐﺎ ﻣﺰﻋﻮﻡ ﮨﮯ ﻣﺤﺾ ﺑﺎﻃﻞ ﻭ ﻏﻠﻂ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ِ ﻣﻄﮩﺮﮦ ﭘﺮﺍﻓﺘﺮﺍﺀ ﮨﮯ ۔
ﺍﻭﺭ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﺸﺖ ﯾﺎ ﮐﭽﮫ ﺯﺍﺋﺪ ﮨﻮ۔ ” ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﺸﺖ ﮐﯽ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﮐﻮﮨﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﻨﺎ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ۔ﯾﺎ ﮐﭽﮫ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ” ۔ ‏( ﺩﺭ ﻣﺨﺘﺎﺭ ،ﺝ ۱ﺹ۱۲۵،ﺭﺩﺍﻟﻤﺤﺘﺎﺭ ﻭﺑﺪﺍﺋﻊ )
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻓﺎﺣﺶ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﻣﮑﺮﻭﮦ ﮨﮯ ۔ﺣﻠﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ
” ﮐﺮﺍﮨﺖ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺤﻤﻮﻝ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﻋﺪﻡ ﮐﺮﺍﮨﺖ ﻗﻠﯿﻞ ﺯﯾﺎ ﺩﺗﯽ ﭘﺮﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﺸﺖ ﮐﯽ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﻢ ” ۔ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻋﻠﻢ ‏( ﻓﺘﺎﻭﯼ ﺭﺿﻮﯾﮧ ،ﺝ۹،ﺹ ۵۶۲ /۵۲۷ ﻣﺴﺌﻠﮧ ۱۵۹ ﺑﺎ ۱۶۱ )
ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ :
” ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ِ ﺷﺮﯾﻔﮧ ﭘﺮ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺋﻨﺘﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﭼﺎﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﭘﺮ ﻣﻮﺍﺟﮩﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻮﺳﻂ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﺎﺩﺏ ﺳﻼﻡ ﻋﺮﺽ ﮐﺮﮮ۔ﻣﺰﺍﺭ ﮐﻮ ﻧﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﻧﮧ ﺑﻮﺳﮧ ﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﻃﻮﺍﻑ ﺑﺎﻻﺗﻔﺎﻕ ﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰﺍﻭﺭ ﺳﺠﺪﮦ ﺣﺮﺍﻡ ” ۔ ‏( ﻓﺘﺎﻭﯼ ﺭﺿﻮﯾﮧ ﺝ۹،ﺹ۵۲۲ )
ﻗﺒﺮ ﻭﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ :
” ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﻣﻤﺎﻧﻌﺖ ﮨﮯ ۔ﻧﮧ ﮐﮧ ﺟﻮﺗﺎ ﭘﮩﻨﻨﺎ،ﮐﮧ ﺳﺨﺖ ﺗﻮﮨﯿﻦ ِ ﺍﻣﻮﺍﺕ ﻣﺴﻠﻤﯿﻦ ﮨﮯ ۔ﮨﺎﮞ ! ﺟﻮ ﻗﺪﯾﻢ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻗﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ ۔ﺍﻭﺱ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﻨﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺟﻮﺗﺎ ﭘﮩﻨﮯ ﮨﻮ۔ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺑﺎﻧﺪﮬﻨﺎ ،ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﺑﭽﮭﺎﻧﺎ ،ﺳﻮﻧﺎ ﺳﺐ ﻣﻨﻊ ﮨﮯ ” ۔ ‏( ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺭﺿﻮﯾﮧ ﺝ۴ﺹ۱۰۷ )
ﺩﺭ ﻣﺨﺘﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ” ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﺎ ﻣﻤﻨﻮﻉ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﻤﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻮ ﻧﯿﺎ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ۔ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﯿﺖ ﮐﮧ ﻗﺒﺮ ﺗﮏ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻗﺒﺮ ﮐﻮ ﭘﺎ ﻣﺎﻝ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭻ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺗﮏ ﺟﺎﻧﺎ ﺗﺮﮎ ﮐﺮﮮ ۔ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺑﭩﮭﺎﻧﺎ ﻣﮑﺮﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ،ﯾﮩﯽ ﻣﺨﺘﺎﺭ ﮨﮯ ” ۔ ‏( ﺩﺭ ﻣﺨﺘﺎﺭ ،ﺑﺎﺏ ﺻﻠﻮۃ ﺍﻟﺠﻨﺎﺋﺰ ،ﺝ۱ﺹ۱۶۲ )
ﻋﺎﻟﻤﮕﯿﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ
” ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﮔﻼﺏ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﮯ ” ۔‏( ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﮨﻨﺪﯾﮧ ،ﺝ۵ﺹ۳۳۱ )
ﺭﺩﺍﻟﻤﺤﺘﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ
” ﭘﮭﻮﻝ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺗﺮ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﯿﺖ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺑﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺫ ﮐﺮ ﺳﮯ ﺭﺣﻤﺖ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ِﭘﺎﮎ ﮐﮯ ﺍﺗﺒﺎﻉ ﮐﮯ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻨﺪﻭﺏ ﮨﻮﻧﺎ ﺍﺧﺬ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﺳﯽ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻗﯿﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺱ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﯽ ﺷﺎﺧﯿﮞﺮﻟﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﮨﮯ ” ۔ ‏( ﺭﺩﺍﻟﻤﺤﺘﺎﺭ ﺝ۱ﺹ۶۰۷ )
” ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺣﺮﺍﻡ ،ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺣﺮﺍﻡ ،ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺣﺮﺍﻡ،ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﯾﺎ ﺯﺭﺍﻋﺖ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﺣﺮﺍﻡ۔ﺭﺩﺍﻟﻤﺤﺘﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺣﻠﯿﮧ ﺳﮯ ،ﻓﺘﺢ ﺍﻟﻘﺪﯾﺮ ﻭ ﻃﺤﻄﺎﻭﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ۔ﺍﮔﺮ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺒﺮ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮﺍﺱ ﮐﮯ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﭼﺎﺭﻭﻥ ﻃﺮﻑ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﭘﺎﻭٔﮔﺰ ﮨﻮ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭘﺮ ﭼﮭﺖ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻧﻤﺎﺯ ﯾﺎ ﭘﺎﻭٔﮞ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ ۔ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻗﺒﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺎﺯ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﺩﯾﻮﺍ ﺭﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ” ۔‏( ﻋﺮﻓﺎﻥ ِﺷﺮﯾﻌﺖ ﺝ۲ﺹ۲ )
ﭼﻮﺭﯼ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ :
ﭼﻮﺭﯼ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﺩﺍﻧﺴﺘﮧ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮧ ﮨﻮ ﻣﻈﻨﻮﻥ ﮨﻮ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ۔ﻣﺜﻼً ﮐﻮﺋﯽ ﺟﺎﮨﻞ ﺷﺨﺺ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺛﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﮨﻞ ﺗﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﻋﻠﻤﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺑﯿﭽﻨﮯ ﮐﻮ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣِﻠﮏ ﺑﺘﺎﮮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻧﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﻗﺮﯾﻨﮧ ﺗﻮ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ۔ﭘﮭﺮ ﺍﮔﺮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﻮ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﺍﺭﺛﻮﮞ ﮐﻮ،ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﭘﺘﮧ ﻧﮧ ﭼﻞ ﺳﮑﮯ ﺗﻮ ﻓﻘﺮﺍﺀ ﮐﻮ ” ۔‏( ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺭﺿﻮﯾﮧ ﺝ۷ﺹ۳۸ )
ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﻝ :
” ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﻝ ﻧﮧ ﮐﺮﺋﮯ ﮐﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻤﺎﻧﻌﺖ ﺁﺋﯽ ﮨﮯﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺷﻨﯿﻊ‏( ﺑﺮﮮ ‏) ﭘﺮ ﺍﻋﺎﻧﺖ ﮨﮯ ۔ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﻞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺴﮧ ﺩﮮ ﺗﻮ ﺳﺘﺮ ﺍﻭﺭ ﺩﺭ ﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﮐﻔّﺎﺭﮦ ﮨﻮﮞ ﮐﻤﺎ ﻓﯽ ﺍﻟﮭﻨﺪﯾﮧ ﻭﺍﻟﺤﺪﯾﻘۃ ﺍﻟﻨﺪﯾﮧ ۔۔ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﮯ ﺗﻤﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﯾﺎ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﻭٔﮞ ﮐﻮ ﭘﮭﺎﻧﺪ ﮐﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﻨﺎ ﺑﺎﻻﺗﻔﺎﻕ ﻣﻤﻨﻮﻉ ” ۔‏( ﺍﺣﺴﻦ ﺍﻟﻮﻋﺎﺀ، ﺹ۱۳۲ )
ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﯽ ﻣﻘﺪﺍﺭ :
” ﺩﺍﮌﮬﯽ ﻣﻨﮉﺍﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺴﺨﺴﯽ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻻﺣﺪِ ﺷﺮﻉ ﺳﮯ ﮐﻢ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻓﺎﺳﻖ ﻣﻌﻠﻦ ﮨﮯ ۔ ﺍﺳﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ ۔ﻓﺮﺽ ﮨﻮﯾﺎ ﺗﺮﺍﻭﯾﺢ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ۔ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻏﻀﺐ ﺍﻭﺭ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﻗﺘﻞ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﯽ ﻭﻋﯿﺪ ﯾﮟ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺁﻥ ِ ﻋﻈﯿﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮﻟﻌﻨﺖ ﮨﮯ ۔ﻧﺒﯽ ﷺ ﮐﮯ ﻣﺨﺎﻟﻔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﺞ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺣﺸﺮ ﮨﻮ ﮔﺎ ” ۔ ‏( ﺍﺣﮑﺎﻡ ِﺷﺮﯾﻌﺖ ،ﺡ
۲،ﺹ۲۳ )
ﻣﺮﺩ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻮﭨﮭﯽ :
” ﭼﺎﻧﺪﯼ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﮕﻮﭨﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﮓ ﮐﯽ ﺳﺎﮌﮬﮯ ﭼﺎﺭ ﻣﺎﺷﮧ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻭﺯﻥ ﮐﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﻨﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﺍﻧﮕﻮﭨﮭﯿﺎﮞ ﯾﺎ ﮐﺌﯽ ﻧﮓ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﮕﻮﭨﮭﯽ ﯾﺎ ﺳﺎﮌﮬﮯ ﭼﺎﺭ ﻣﺎﺷﮧ ﺧﻮﺍﮦ ﺯﺍﺋﺪ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﻧﮯ ،ﮐﺎﻧﺴﮯ ، ﭘﯿﺘﻞ ،ﻟﻮﮨﮯ ،ﺗﺎﻧﺒﮯ ﮐﯽ ﻣﻄﻠﻘﺎًﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ۔ﮔﮭﮍﯼ ﮐﯽ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﺳﻮﻧﮯ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﮐﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﺍﻭﺭ ﺩﮬﺎﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻤﻨﻮﻉ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﻣﻨﻊ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﭘﮩﻦ ﮐﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﻣﮑﺮﻭﮦ ﺗﺤﺮﯾﻤﯽ ﮨﮯ ” ۔ ‏( ﺍﺣﮑﺎﻡِ ﺷﺮﯾﻌﺖ،ﺝ۱،ﺹ۷۲ )
ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭ ﭼﮍﮬﺎﻧﺎ :
” ﻗﺒﻮﺭ ِﺍﻭﻟﯿﺎ ﺋﮯ ﮐﺮﺍﻡ ﻗﺪﺳﻨﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﺎﺍﺳﺮﺍﺭﮨﻢ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭ ﺑﻘﺼﺪ ﺗﺒﺮﯾﮏ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﻣﺴﺘﺤﺴﻦ ﮨﮯ ” ۔ ‏( ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺭﺿﻮﯾﮧ ﻣﺘﺮﺟﻢ ،ﺝ۹،ﺹ۵۳۳ )
” ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﺟﺐ ﭼﺎﺩﺭ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮ،ﺧﺮﺍﺏ ﻧﺎ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﻮ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺣﺎ ﺟﺖ ﻧﮩﯿﮟ ،ﺗﻮ ﭼﺎﺩﺭ ﭼﮍﮬﺎﻧﺎ ﻓﻀﻮﻝ ﺧﺮﭼﯽ ﮨﮯ ۔ﺑﻠﮑﮧ ﺟﻮﺭﻗﻢ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﮐﺮﮮ ۔ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻭﻟﯽ ﮐﻮ ﺍﯾﺼﺎﻝِ ﺛﻮﺍﺏ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯﮐﺴﯽ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﮐﻮ ﺩﮮ ” ۔ ‏( ﺍﺣﮑﺎﻡ ِ ﺷﺮﯾﻌﺖ ،ﺹ۴۲،ﺝ۱ )
ﻋﺮﺱ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺶ ﺑﺎﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﺎﺯ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻟﭩﺎﻧﺎ :
” ﺁﺗﺶ ﺑﺎﺯﯼ ﺍﺳﺮﺍﻑ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺮﺍﻑ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻟﭩﺎﻧﺎ ﺑﮯ ﺍﺩﺑﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍﺩﺑﯽ ﻣﺤﺮﻭﻣﯽ ﮨﮯ ۔ﺗﻀﯿﻊِ ﻣﺎﻝ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺗﻀﯿﻊ ﺣﺮﺍﻡ ،ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺍﮔﺮ ﻣﺼﺎﻟﺢ ِ ﺷﺮﻋﯿﮧ ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﻮﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﺮﺍﻑ ﮨﮯ ” ۔ ‏( ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺭﺿﻮﯾﮧ،ﺝ۲۴،ﺹ۱۱۲ )
ﺫﯾﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﺞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒ ﺍﺳﮯ ” ﺷﺮﻋﯽ ﻃﺮﯾﻘﮧ ” ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ” ﻏﯿﺮ ﺷﺮﻋﯽ ﺍﻣﻮﺭ ” ﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﮔﺎﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ِﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﻣﺤﻘﻖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ
” ﻣﺮﺩﮮ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺻﺮﻑ ﻓﻘﺮﺍﺀ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﻮ،ﻋﺎﻡ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺟﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﻨﻊ ﮨﮯ ،ﻏﻨﯽ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﺋﮯ ،ﮐﻤﺎ ﻓﯽ ﻓﺘﺢ ﺍﻟﻘﺪﯾﺮ ﻭﻣﺠﻤﻊ ﺍﻟﺒﺮﮐﺎﺕ )” ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺭﺿﻮﯾﮧ ،ﺝ۹،ﺹ۵۳۶ )
” ﻗﺒﺮ ﻭﮞ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ۔ﻣﮕﺮ ﺷﺐ ﻣﯿﮟ ﺗﻨﮩﺎ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ۔ﺍﻭﺭﺯﯾﺎﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﻓﻀﻞ ﻭﻗﺖ ﺭﻭﺯِ ﺟﻤﻌﮧ ﺑﻌﺪِ ﻧﻤﺎﺯ ﺻﺒﺢ ﮨﮯ )” ﺍﯾﻀﺎًﺹ۵۲۲ )
” ﻋﻮ ﺩ ﻟﻮﺑﺎﻥ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﻔﺲ ِﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺟﻼﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﺣﺘﺮﺍﺯ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺍﮔﺮ ﭼﮧ ﺑﺮﺗﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ۔ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻭﺑﻦ ﺍﻟﻌﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ “: ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻡ ِ ﻣﺮﮒ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ ﺟﺎﻭٔﮞ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻮﺣﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﻧﮧ ﺁﮒ ﺟﺎﺋﮯ ” ۔ ‏( ﻣﺴﻠﻢ ،ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻻﯾﻤﺎﻥ ،ﺽ۱،ﺹ۷۶ ‏) ﺷﺮﺡ ِﻣﺸﮑﻮۃﻟﻼﻣﺎﻡ ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮﺍﻟﻤﮑﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ” ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺁﮒ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﻝِ ﺑﺪ ﮨﮯ ” ۔‏( ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺭﺿﻮﯾﮧ ،ﺝ۹،ﺹ۴۸۲ )
” ﺗﺎﺵ ﺍﻭﺭ ﺷﻄﺮﻧﺞ ﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺵ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮔﻨﺎﮦ ﻭﺣﺮﺍﻡ ﮐﮧ ﺍ ﺳﻤﯿﮟ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ” ۔ ‏( ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺭﺿﻮﯾﮧ ،ﺝ۲۴،ﺹ۱۱۳ )
ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﻋﻈﯿﻢِ ﺍﻟﺸﺎﻥ ﻻﺋﻖ ِﺗﻘﻠﯿﺪ ﻭﻋﻤﻞ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﻣﺤﻘﻖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ۔ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺻﺪ ﮨﺰﺍﺭ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﮧ ﺁﺝ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎ ﺕ ﺳﮯ ﮐﻮﺳﻮﮞ ﺩﻭﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ” ﺑﮯ ﺟﺎﻏﯿﺮ ﺷﺮﻋﯽ ﺭﺳﻤﻮﮞ ” ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﺞ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻓﺨﺮ ﺳﮯ ﻋﻤﻞ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﭽﺎ ،ﭘﮑﺎ ” ﻋﺎﺷﻖ ِ ﺭﺳﻮﻝﷺ ” ﻭ ” ﻋﺎﺷﻖ ِ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎﺧﺎﮞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ” ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺮﻭﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻭﺭ ﻣﺨﺎﻟﻔﯿﻦ ﺍﺳﯽ ﮐﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ” ﻣﺴﻠﮏ ﺍﻋﻠٰﯽ ﺣﻀﺮﺕ ” ﻭ ” ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ” ﮐﻮ ﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻏﻠﻂ ﮈﮬﻨﮓ ﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﮔﺮﮨﻢ ﺍﻥ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﻣﺨﺎﻟﻔﯿﻦ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﺧﻮﺩ ﺑﮧ ﺧﻮﺩ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ﺍﻭﺭ ﺍﮐﻨﺎﻑ ِﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﮞ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺷﺨﺼﯿﺖ ” ﻧﺼﻒ ﺍﻟﻨﮭﺎﺭِﺷﻤﺸﯽ ” ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺟﻠﻮﮦ ﮔﺮ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔
ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺮﻏﻮﺏ ﺣﺴﻦ ﻗﺎﺩﺭﯼ ﺍﻋﻈﻤﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻘﺎ ﻟﮧ ” ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﻣﺼﻠﺢ ” ﻣﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ” ﺁﺝ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﻣﻈﻠﻮﻡ ،ﺍﺳﻠﺌﮯ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺯﻭﺭ ﻗﻠﻢ ﺳﮯ ﺟﻦ ﻓﺘﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺴﻤﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺁﺋﮯ ﺩﻥ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺮ ﺍﻧﮕﯿﺰﯾﺎﮞ ﭘﮭﺮ ﺍﺑﮭﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺟﺬﺑﮧ ﻣﻠﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﻣﺤﺴﻦ ﮐﮯ ﮈﻭﺑﺘﮯ ﺳﻔﯿﻨﮯ ﮐﻮ ﻧﺬﺭِ ﺑﮭﻨﻮﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻨﺘﺸﺮ ﭘﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﯾﮑﺠﺎ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﺋﮯ ﻏﯿﺒﯽ ﮐﻮ ﺍﮎ ﺑﺎﺭ ﭘﯿﺶ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ۔ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭼﻮﺩﮨﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﮐﮯ ﮨﻮﺵ ﺭﺑﺎ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﯿﺶ ﻭﺁﺭﺍﻡ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﻨﭧ ﭼﮍﮬﺎ ﮐﺮ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﻌﻞ ِﺭﺍﮦ ﺍﯾﮏ ﺷﻤﻊ ﻓﺮﻭﺯﺍﮞ ،ﺍﯾﮏ ﺷﻤﻊ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺧﺪﺍ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻋﻈﯿﻢ ﻣﺤﺴﻦ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺳﮯ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﺭﮐﮭﮯ۔
ﺗﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺜﺎﺭ